بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
حلیمہ : کیا تمہیں اس پر شیطان کا خوف ہے ، ہرگز نہیں ،خدا کی قسم: شیطان اس کو کچھ نقصان نہیں پہونچا سکتا، میرے بیٹے کی شان عجیب وغریب ہے ، جب یہ میرے پیٹ میں تھا تومیں نے دیکھا کہ میرے جسم سے ایک نور نکلا جس نے میرے سامنے ملک شام کے شہر بصری کے محلات روشن کردیئے،خدا کی قسم میں نے اس حمل سے زیادہ آسان اور ہلکا حمل نہیں دیکھا۔( پوری داستان کے لئے ملاحظہ ہو: سیرت ابن ہشام :۱/۱۶۳الخ، المواہب للقسطلانی:۱/۱۴۷)والدہ کی وفات کا صدمہ چھ سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی والدہ کی آغوشِ تربیت میں رہتے ہیں ، اللہ کے بعض فیصلے انسانی عقل سے ماورا ہوتے ہیں ، حضرت آمنہ اپنے شوہر کی یاد سے بے چین ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان کی قبر کی زیارت کے لئے یثرب گئیں ، وہاں ایک ماہ قیام کیا، پھر مکہ واپس ہوئیں ، راستہ میں ان کی طبیعت بگڑی، اور مقام ’’ابواء‘‘ میں اپنے یتیم بچے اور اپنی خادمہ ام ایمن کو چھوڑکر اِس دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔( المواہب :۱/۱۶۸) آپ تصور کیجئے کہ کیا عالم ہوا ہوگا؟ ۶؍سال کی عمر ، شعور کے آغازکی عمر، سفر کی تنہائی، صحراء کی وحشت ناکی، مادرِ مہربان کی جدائی، کتنے صدے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ننھی جان پر آئے، ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کس طرح مکہ لائیں ، کیا کیفیات رہی ہوں گی، جسم وروح پر صدمات کے کیسے چَرکے لگے ہوں گے، آہ! ان کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے، ان کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہجرت کے ساتویں سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم مقام ابواء سے گذرے تو فرمایا: قَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِيْ زِیَارَۃِ قَبْرِ أُمِّہِ۔ اللہ کی طرف سے محمد کو اس کی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔