بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
میں عرض کردوں کہ مالک! یہ جان آپ کی دی ہوئی تھی، آپ نے لی، ہاں یہ کٹی ہوئی ناک، یہ پھٹا ہوا ہونٹ، یہ کٹے ہوئے کان، یہ نکلی ہوئی آنکھیں ، یہ چاک شدہ پیٹ، یہ کاٹی گئی گردن، یہ سب آپ کی اور آپ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ میں آپ کے اس بندے کا نذرانہ ہے، سچ تو یہ ہے کہ میں یہ سب کچھ کرکے بھی حق ادا نہیں کرسکا ہوں ؎ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اور پھر اے میرے رب :یہ سن کر آپ فرمادیں کہ میرے بندے: تو واقعی سچ کہتا ہے۔ حضرت سعد ؓکا بیان ہے کہ جنگ احد کے ختم پر میں نے دیکھا کہ میرے دوست عبد اللہ کی دعا قبول ہوچکی ہے، ان کی لخت لخت لاش ہمارے سامنے ہے، انہوں نے راہِ خدا میں اپنی شجاعت کے بے نظیر جوہر دکھائے تھے، تلوار تک ٹوٹ گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس کے بدلے کھجور کی ایک شاخ دے دی تھی،مجاہد حق کے ہاتھ میں وہ شاخ بھی شمشیر براں کا کام کررہی تھی، راہِ خدا میں اس شان سے اعزاز شہادت پانے والے صحابی کو ’’مجدع فی اللہ‘‘ (وہ انسان جس کی ناک اور کان اللہ کی راہ میں کاٹے گئے) کا لقب عطا ہوا تھا۔ (زرقانی:۲/۵۱، المستدرک:۳/۲۰۰، الاصابۃ:۲/۲۸۷)انفرادی مقابلے پوری مجاہدین کی جماعت میں کیا جوان ،کیا بوڑھا، کیا کمزور، کیا طاقت ور، ہر کوئی اسی جذبۂ شہادت وجاں نثاری سے سرشار تھا، ان کیفیات کے ساتھ جنگ احد کا آغاز ہوا ہے، پہلے انفرادی مقابلے ہوئے، سب سے پہلے کافر طلحہ بن ابی طلحہ نے دعوتِ مقابلہ دی، حضرت