بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ابو لہب اوراس کے بیٹوں کی گستاخی ہم نبوت کے چوتھے سال میں ہیں ، بدترین دشمن اسلام ابولہب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پریشان کرنے کے لئے اپنے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحب زادیوں ’’حضرت رقیہ وام کلثوم‘‘ کی نسبت توڑ دی، ابولہب کے کہنے پر عتیبہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قمیص مبارک پھاڑ دی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رخ انور پر تھوکا اور گستاخی کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بددعا دی تھی کہ: اَللّٰہُمَّ سَلِّطْ عَلَیْہِ کَلْباً مِنْ کِلَابِکَ۔ اے اللہ اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط کردیجئے۔ پیغمبر علیہ السلام کی بددعا قبول ہوئی،سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ عتیبہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام گیا، اردن کے دار الحکومت عمان کے قریب زرقا نامی مقام پر قافلہ مقیم ہوا، وہاں جنگل تھا، عتیبہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بددعا یاد آئی، وہ گھبراگیا، اس نے اپنے ساتھیوں سے کہہ کر اپنے لئے اونچی جگہ کا انتخاب کیا، مگررات کو ایک خونخوار شیر آیا، قافلہ کا چکر لگایا ، سب کو سونگھتا ہوا بالآخر عتیبہ کے پاس پہونچااور دبوچ کر چند لمحوں میں جہنم رسید کردیا۔( تفسیر ابن کثیر:۴، سورۃ النجم، دلائل النبوۃ للبیہقی:۲/۳۳۹)آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت آقا کی زبانی اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیمار ہوئے، چند دنوں وحی موقوف رہی، دشمنوں بطور خاص ام جمیل نے طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد کو اس کے شیطان نے چھوڑدیا ہے، اس پر سورۃ الضحیٰ نازل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت شان رب کی زبانی بیان ہوئی۔(معارف القرآن:۸/۷۶۵ الخ) وَالضُّحَی، وَاللَّیْلِ إِذَا سَجَی، مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَاقَلَی، وَلَلآخِرَۃُ خَیْرٌلَکَ مِنَ الأُولَی، وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضَی،أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْماً فَآ وَی، وَوَجَدَکَ ضَالًّا