بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ سے قلم لے کر خود مٹادیا، اور ’’رسول صلی اللہ علیہ و سلم للّٰہ‘‘ کی جگہ ’’عبد اللّٰہ‘‘لکھا گیا۔ اس کے بعد معاہدہ کی دفعات لکھی گئیں : (۱) باہمی لڑائیاں دس سال تک بند رہیں گی۔ (۲) قریش کا جو شخص مسلمان ہوکر مدینہ آجائے اسے واپس کرنا ہوگا۔ (۳) جو مسلمان مدینہ منورہ سے مکہ آجائے گا اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ (۴) اس سال عمرہ نہیں ہوگا، محمدا اور ان کے ساتھی آئندہ سال آئیں اور صرف ۳؍دن مکہ میں قیام کرکے عمرہ کرکے واپس ہوجائیں ۔ (۵) قبائل کو اختیار ہے کہ وہ جس کے ساتھ معاہدہ ومصالحت میں شریک ہونا چاہیں شریک ہوسکتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تمام شرطیں یک طرفہ طور پر تسلیم کرلیں ، معاہدے پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوئے۔ (بخاری: الشروط:باب الشروط فی الجہاد، المعاہدات فی الشریعۃ الاسلامیۃ:د/محمد دیک:۲۷۰ الخ)حضرت ابوجندلؓ وابوبصیرؓ کی مظلومیت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایفاء عہد ابھی یہ معاہدہ لکھا ہی جارہا تھا کہ پہلے حضرت ابوجندل پھر حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہما روتے ہوئے آئے، یہ وہ مسلمان تھے جنہیں مکہ والوں نے بیڑیاں ڈال کر ظلم وستم کی حد کردی تھی، یہ اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں رہا کرادیجئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی آزادی چاہتے تھے، مگر سہیل نے کہا کہ یہ معاہدہ کی دفعہ ۳؍کے خلاف ہے، بالآخر بادل ناخواستہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان قیدیوں کو واپس کردیا، اس نازک موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایفاء عہد کی مثال قائم کی اور معاہدے کو متأثر نہیں ہونے دیا۔