بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
بالآخر چند دنوں بعد انہوں نے جان جان آفریں کے سپرد کردی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیان کے مطابق ۷۰؍ہزار فرشتے ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، عرشِ الٰہی ان کی وفات پر حرکت میں آگیا۔ (مشکوۃ المصابیح:باب اثبات عذاب القبر)حضرت نعیمؓ کا انقلابی کردار محاصرہ کو تقریباً ایک ماہ گذر گیا، اللہ نے غیبی انتظام فرمایا، غطفان کے سردار نعیم بن مسعود کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے، اور اسلام قبول کرلیا، انہوں نے اپنی خدمات پیش کرنی چاہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دشمن کی طاقت توڑنے کا حکم دیا، انہوں نے کہا کہ اجازت ہو تو میں کوئی تدبیر اختیار کروں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ۔(بخاری:الجہاد: باب الحرب الخدعۃ) (جنگ حیلہ وتدبیر کا نام ہے) تمہیں اجازت ہے۔ حضرت نعیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی تدبیروں میں لگ گئے، پہلے بنوقریظہ کے یہودیوں سے ملے، کہنے لگے کہ: میں تمہارا دوست ہوں ، تم دیکھ رہے ہو کہ حالات بدل رہے ہیں ، قریش وغطفان دور سے آئے ہیں وہ چلے جائیں گے،پھر تم اکیلے رہ جاؤگے اور مسلمان تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، یہودی بولے کہ پھر ہم کیا کریں ؟ حضرت نعیم نے کہا کہ اب قریش وغطفان کے لوگ تمہارے پاس مدد کے لئے آئیں تو ان میں سے دس لوگوں کو گروی رکھو؛ تاکہ وہ تم کو اکیلا چھوڑکر بھاگ نہ سکیں ، یہ بات بنوقریظہ کے دماغ میں بیٹھ گئی۔ اس کے بعد حضرت نعیم رضی اللہ عنہ ابوسفیان کے پاس گئے اور بولے کہ: بنوقریظہ پر بھروسہ مت کرو، وہ تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے عہد شکنی پر پریشان ہیں ، اب وہ مسلمانوں سے دوبارہ رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں ، مسلمانوں سے انہوں نے اِس شرط پر مصالحت کرلی ہے کہ وہ تمہارے دس لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے کردیں گے اور انہیں قتل کردیا جائے گا۔