بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اس کے بعد قریش نے بنوقریظہ کو پیغام بھیجا کہ کل ہم مسلمانوں پر زور دار حملہ کریں گے، اندر سے تم مسلمانوں پر دھاوا بول دو، بنوقریظہ نے پیغام بھیجا کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم پنے دس آدمی ہمارے پاس نہیں بھیجیں گے اس وقت تک ہم ساتھ نہیں دیں گے، اب قریش کو بنوقریظہ کے ساتھ چھوڑنے کا یقین ہوگیا، حضرت نعیم کی اس جنگی چال سے اتحادیوں میں پھوٹ پڑگئی، حوصلے پست ہوگئے، بدگمانی کا زہر اپنا کام کرگیا، اور مدینہ منورہ کی فتح کی آخری امید بھی ختم ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام:۳/۲۴۰الخ، المغازی للواقدی:۱/۴۰۹، شرح الزرقانی:۲/۱۱۷الخ)اللہ کی مدد تمام اسباب کے بعد آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے اور مسلمانوں نے اپنے ہاتھ اپنے رب کی بارگاہ میں اٹھادئے اور بے انتہاء الحاح وزاری سے نصرتِ الٰہی کے نزول کی دعائیں مانگیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ الفاظ تھے: اَللّٰہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ ہَازِمَ الأَحْزَابِ، اَللّٰہُمَّ اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ۔(بخاری: المغازی: باب غزوۃ الخندق) اے اللہ: کتاب اتارنے والے: جلد حساب لینے والے:لشکروں کو شکست دینے والے :انہیں شکست دے اور جھنجھوڑکر رکھ دے۔ اللہ نے اپنی نصرت اُتاردی، تیز ہوا چلی، طوفان باد وباراں آیا، دشمنوں کے خیمے اکھڑنے لگے، طنابیں ٹوٹنے لگیں ، اونٹ بھاگنے اور گھوڑے بدکنے اور چولہے الٹنے لگے، ہنگامہ برپا ہوگیا، اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَآئَ تْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا وَجُنُوْدًا لَمْ تَرَوْہَا وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا۔ (الأحزاب: ۹)