بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
جذبات برانگیختہ کرنے والی باتیں آتی تھیں ، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو ہر موقع پر قابو میں رکھا اور ان کو جذباتیت کی رَو میں بہنے سے روکے رکھا، کسی بھی عظیم مقصد کا حصول اور کسی بھی اعلیٰ تعمیری ہدف تک رسائی اس کے بغیر نہیں ہوسکتی کہ انسان اشتعال دلانے والی باتیں نظر انداز کردے اور اپنے شعور کو اور ہوش کو جذبات اور جوش پر مقدم رکھے۔ (۸) قائد اعلیٰ کی بہرصورت اطاعت کا سبق بھی یہ واقعہ امت کو دیتا ہے، صلح حدیبیہ کی بعض دفعات مسلمانوں کے لئے خلافِ مزاج؛ بلکہ ناقابل قبول تھیں ، مگر قائد اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کا رخ دیکھ کر صحابہ نے نے سرتسلیم خم کردیا تھا، آج یہ وصف امت میں نایاب ہے، کوئی بھی قیادت ماتحتوں کی اطاعت کے بغیر کامیابی کی منزل طے نہیں کرسکتی، اگر امت کا ہر فرد اپنی رائے کو اصل سمجھنے لگے تو امت کا اجتماعی وجود بکھر جائے گا۔ (۹) اس موقع پر مختلف صحابہ کے امتیازی جوہر نکھر کر نمایاں ہوئے، چناں چہ فکر نبوت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کامل ہم آہنگی اور قرب ظاہر ہوا، اور ان کا مزاج دانِ نبوت ہونا ثابت ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حق گوئی کی جرأت کا مظہر سامنے آیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عشق واحترام ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا کمالِ ادب، اور حضرت ام سلمہ کی فراست اور اصابت رائے کے نمونے امت کے سامنے آئے، اور قیامت تک آنے والی امت کو ان کرداروں کے سانچے میں ڈھلنے کا سبق ملا۔مظلوم مسلمانوں کے مسئلے کا حل آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے، مکہ سے حضرت ابوبصیر کسی طرح بھاگ کر مدینہ آگئے، قریش نے دو قاصدوں کو لینے مدینہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وعدہ کے مطابق انہیں واپس بھیج دیا، بالآخر واپس ہوئے، راستے میں ابوبصیر نے ایک کافر کو قتل کردیا، دوسرا کافر بھاگ کھڑا ہوا، اس کے بعد ابوبصیر ساحل سمندر کے قریب مقام ’’عیص‘‘ میں مقیم