بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
یہ حج مشترک تھا، اس میں کچھ مشرک بھی تھے، سفر شروع ہونے کے بعد سورۃ التوبہ کی آیات نازل ہوئیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حج کے موقع پر وہی آیات سنانے اور کچھ ضروری اعلانات کرنے کے لئے روانہ فرمایا۔ چناں چہ پوری صراحت کے ساتھ یہ اعلان کردیا گیا کہ آئندہ سے کسی غیرمسلم کو سرزمین حرم میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی، کسی کو برہنہ طواف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس سے کوئی معاہدہ کیا ہے وہ معاہدہ اپنی متعینہ مدت تک باقی رہے گا، باقی دیگر لوگوں کو چار ماہ کی مہلت ہے، اس دوران دین حق میں داخل ہوجائیں یا کہیں اور سکونت اختیار کرلیں ۔ (طبقات:۲/۱۶۸، مسند احمد:۱/۷۹، سیرت احمد مجتبی:۳/۳۲۹) اس حج میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت درحقیقت یہ اشارہ تھا کہ آئندہ خلافت کا منصب اولین طور پر انہیں کے حصہ میں آنا ہے، اور ان سے بڑھ کر کوئی اس کے لئے موزوں نہیں ہے، یہ حج آئندہ سال ہونے والے حجۃ الوداع کی تمہید بھی تھا اور مسلمانوں کی بالادستی اور حق کی سربلندی اور بت پرستی کے خاتمے کا نمایاں اعلان بھی تھا۔اہل بیت نبوی کے مجاہدات سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتی زندگی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کی زندگی سراپا زہد ومجاہدہ زندگی تھی، قربانی کے ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل بیت آگے رہتے تھے اور منافع کے ہر موقع پر پیچھے رہتے تھے، روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کو خادم عطا فرمائے، مگر اپنی لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو ضرورت کے باوجود نہیں دیا؛ بلکہ انہیں تسبیحات واذکار کی پابندی کا حکم دیتے ہوئے اسے خادم سے بہتر بتایا۔ (بخاری: فرض الخمس:باب الدلیل الخ)ایلاء اور تخییر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہرات بے انتہا قناعت پسند اور صبر شعار خواتین تھیں ، اکثر فقر