بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اپنی ردائے مبارک اتارکر دے دیتے ہیں ، صفوان ردائے مبارک دیکھتے ہیں ، عفو ودرگذر کی نوید سنتے ہیں ، آنکھوں اور کانوں کے ساتھ دل بھی روشن ہوجاتا ہے، دامن اسلام سے وابستہ ہوجاتے ہیں ۔ (المعجم الکبیر:للطبرانی:۱۷/۵۶-۵۷، سیرت ابن ہشام: ۲:۶۶۱ الخ، الکامل فی التاریخ : لابن الاثیر:۲/۳۰، البدایۃ والنہایۃ :۳/۳۲۶ الخ)مختلف احکام شرعیہ کی مشروعیت: ( عیدین، صدقہ فطر، نصاب زکوۃ، قربانی، درود و سلام) ۲؍ہجری کے رمضان المبارک ختم ہونے میں دو دن باقی تھے، قرآنی آیات قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّیٰ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ۔ (الاعلیٰ) نازل ہوئی، صدقۂ فطر اور نماز عیدالفطر کا حکم آیا، یہ پہلی عید تھی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امامت میں ادا کی گئی۔ (شرح الزرقانی:۱/۴۵۴) پھر اسی سال ذی الحجہ میں نماز عید الاضحی مشروع ہوئی، قربانی کا حکم آیا۔(ایضاً:۱/۴۶۰) مدینہ منورہ کے لوگ زمانۂ جاہلیت میں دو دن خوشی منایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیان کے مطابق اللہ نے عیدالفطر اور عید الاضحی کے پرمسرت موقعے ان کا نعم البدل بنادئے۔(مشکوۃ المصابیح: العیدین) پھر اسی سال پہلے سے فرض چلی آرہی زکوٰۃ کی تفصیل اور اس کے نصاب ومصارف کی توضیح وتعیین کا عمل انجام پایا۔(الرحیق المختوم:۳۶۱) اور راجح قول کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں درود وسلام پیش کرنے کا حکم بھی اسی سال آیا۔(سیرت احمد مجتبیٰ :۲/۲۷۴) اور فرمایا گیا: