بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہوگا۔ اس آیت کریمہ کے ذریعہ پورے ماہِ رمضان کے روزے فرض کردئے گئے اور روزوں کا اولین مقصد اور فائدہ تقویٰ اور خوفِ خدا بتایا گیا، اس کے بعد عاشورہ کا روزہ سنت کردیا گیا۔(مسلم: الصوم: باب صوم یوم عاشوراء)اذن جہاد مدینہ منورہ میں اہل ایمان کا اطمینان وسکون سے قیام اور دین کی دعوت کی مہم میں انہماک مکہ کے مشرکین کو گوارا نہیں ہورہا تھا، اس لئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف منصوبہ سازیاں ، سازشیں اور جنگی مہمات شروع کردی تھیں ، چناں چہ ۱۲؍صفر المظفر ۲؍ہجری مطابق ۴؍اگست ۶۲۳ء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو جہاد، ظالموں کے خلاف تلوار اٹھانے اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے مسلح جدوجہد کی اجازت ملی۔(سیرۃ النبی:۱/ ۱۹۹) اور فرمایا گیا: اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ۔ (الحج: ۳۹) جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انہیں اجازت دی جاتی ہے کہ وہ صلی اللہ علیہ و سلم پنے دفاع میں لڑیں ، کیوں کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہیں ۔ اس اجازت کے بعد دوسرے مرحلے میں سورۂ بقرہ میں حکم جہاد کی آیات نازل ہوئیں ، چناں چہ کبھی ارشاد ہوا: وَقَاتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ۔ (البقرۃ: ۱۹۰)