بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
(۱) بنوخزاعہ کے مقتولین کی دیت ادا کی جائے ۔ (۲) بنوبکر سے لاتعلقی کا اعلان کردیا جائے (۳) معاہدۂ حدیبیہ کو منسوخ قرار دے دیا جائے۔ قریش کے بعض سرداروں نے اس کے جواب میں پہلی اور دوسری صورت نامنظور کردی اور معاہدہ کے فسخ پر رضامندی ظاہر کردی۔ (المغازی: للواقدی:۲/۲۳۳ الخ)لا حاصل ندامت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قاصد نے پوری صورتِ حال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتادی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حملہ کا ارادہ فرمالیا، دوسری طرف مکہ کے سرداروں کو معاہدہ فسخ کرنے کی بات پر بڑا افسوس ہوا، چنانچہ ابوسفیان معاہدہ کی تجدید کے لئے مکہ سے مدینہ آئے، سب سے پہلے اپنی بیٹی ام المؤمنین سیدتنا حضرت ام حبیبہ کے پاس پہنچے، بیٹھنا چاہا تو حضرت ام حبیبہ نے بستر لپیٹ دیا، ابوسفیان نے پوچھا کہ یہ کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ سید الطاہرین پیغمبر علیہ السلام کا بستر ہے، کوئی نجس مشرک اس پر نہیں بیٹھ سکتا، ابوسفیان کو یہ بات برداشت نہیں ہوسکی، بولے کہ تمہارے اخلاق یہاں آکر بگڑ گئے، اورپھر باہر نکل گئے۔ (البدایۃ والنہایۃ:۴/۱۴۶) ابوسفیان آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بات کرنے آئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رخِ انور پھیرلیا، انہوں نے باری باری حضرت ابوبکر، عمر، عثمان وعلی رضی اللہ عنہم سب سے مدد چاہی، مگر کہیں سے مدد نہیں ملی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی درخواست کی، نواسۂ رسول سیدنا حضرت حسن کا حوالہ دیا، مگر کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی، اور بے نیل مرام واپس ہونا پڑا۔ (طبقات ابن سعد:۲/۱۳۴، سیرت ابن ہشام:۴/۳۸)جنگ کی تیاری آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری رازداری قائم رکھتے ہوئے صحابہ کو تیاری کا حکم فرمادیا، مکہ ومدینہ