بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
صحابہ کا اضطراب ان حضرات کو جاتا دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آب دیدہ ہوگئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے کہ اے اللہ کے رسول! آپ نبی برحق نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: میں نبی برحق ہوں ، عرض کیا کہ: کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ہم حق پر ہیں ، عمر بولے: پھر ہم یہ ذلت آمیز معاہدہ کیوں قبول کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں ، وہی کرتا ہوں جو اللہ کا حکم ہوتا ہے، اللہ میرا عمل ضائع نہیں فرمائے گا۔ حضرت عمر واپس ہوگئے، مگر رہا نہ گیا، تو اسی طرح کے سوالات صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کئے اور بالکل رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جوابات سے ملتے جلتے جوابات حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی دئے، جو فکر نبوت سے صدیق اکبر کی کامل ہم آہنگی اور بے انتہاء قرب کی دلیل ہیں ۔ (بخاری: الشروط)احرام کھولنا اور قربانی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ سب اپنے احرام کھول کر بال منڈوالیں اور قربانی کرلیں ، صحابہ پر غم والم کی ایسی کیفیت تھی کہ کوئی نہ اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوبارہ پھر سہ بارہ یہی حکم دیا، صحابہ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید اب ہمیں عمرہ کی اجازت مل جائے، عمرہ کئے بغیر واپسی انہیں گوارا نہیں ہورہی تھی، دوسری طرف معاہدے کی بعض ہتک آمیز یک طرفہ شرطیں انہیں غم زدہ کررہی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے صحابہ کا یہ انداز بالکل نیا تجربہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے پر افسردگی طاری ہوگئی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ صحابہ صدمے میں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں کچھ کہنے کے بجائے خود اپنی قربانی فرمائیں اور بال منڈوالیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی کیا، اب صحابہ سمجھ گئے کہ یہی کرنا ہوگا، سب نے قربانی کی،