بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہیں ،اور کہتے ہیں کہ اپنے بھتیجے کو سمجھالیجئے، آپ نہیں سمجھا سکتے، درمیان سے ہٹ جائیے، ہم اس سے نمٹ لیں گے، ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا: بھتیجے! اتنا بوجھ مت ڈالو کہ میں سہار نہ سکوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رقت آمیز مگر پر عزم لہجے میں بہتے آنسوؤں کے ساتھ فرمایا: وَاللّٰہِ :لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِیْنِی،وَالْقَمَرَ فِیْ یَسَارِیْ،عَلَی اَنْ اَتْرُکَ ہَذَا اْلاَمْرَ، مَا تَرَکْتُہُ حَتَّی اَمُوْتَ۔ خدا کی قسم: اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اس دین کوچھوڑ دوں ، میں مرنا توگوارہ کر سکتاہوں مگر اس دین اور دعوت سے دستبردار ہونا گوارہ نہیں کرسکتا۔ ابوطالب پر رقت طاری ہوئی اور انہوں نے کہا: بھتیجے! جو چاہو کرو، میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتا، خدا کی قسم: جب تک میں زندہ ہوں تمہاری مدد کرتا رہوں گا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام :۱/۲۶۶،سیرت ابن اسحاق:۱/ ۱۹۶)ابو طالب کا جذبۂ تعاون اسی موقع پر ابو طالب نے یہ اشعاربھی کہے تھے ؎ وَاللّٰہِ لَنْ یَصِلُوا إِلَیْکَ بِجَمْعِہِمْ حَتَّی أُوَسَّدَ فِيْ التُّرَابِ دَفِیْناْ فَاصْدَعْ بَأَمْرِکَ ماَ عَلَیْکَ غَضَاضَۃٌ وَابْشِرْ وَقَرَّ بِذَاکَ مِنْکَ عُیُوْناْ