بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
علیّہ! خوش ہوجاؤ، اس رب کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تمہارا صدقہ بارگاہِ حق میں قبول کیا جاچکا ہے۔(زاد المعاد:۳/۳۴) یہ بڑی پرلطف داستان ہے، کیا بیان کیا جائے، کیا چھوڑا جائے، ایثار، قربانی، فدائیت، سخاوت، کریم النفسی، اطاعت، تسلیم ورضا، اور توکل واعتماد علی اللہ کے ان گنت نمونے صحابہ کی مقدس جماعت نے اس موقع پر امت کے لئے پیش کئے ہیں ۔منافقین کی تخریب کاریاں ایک طرف یہ ہورہا تھا، دوسری طرف منافقین اپنی تخریب کاریوں میں زور وشور سے لگے ہوئے تھے، ان کا مشن یہ تھا کہ یہ مہم ناکام بنادی جائے، وہ مخلص مسلمانوں کو جہاد سے روک رہے تھے، خطرات سے ڈرارہے تھے، موسم کی تمازت سے خوف زدہ کررہے تھے، قرآن کہتا ہے: وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِی الْحَرِّ، قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ کَانُوا یَفْقَہُوْنَ۔ (التوبۃ/۸۱) وہ کہہ رہے تھے کہ اس گرمی میں نہ نکلو، آپ فرمادیجئے کہ جہنم کی آگ گرمی میں کہیں زیادہ سخت ہے، کاش ان کو سمجھ ہوتی۔ اس موقع پر منافقوں کی ایک خفیہ سازشی میٹنگ ’’سویلم‘‘ نامی شخص کے گھر پر ہورہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت طلحہ کو حکم دیا کہ اس گھر کو جلادیا جائے، بالآخر گھر جلادیا گیا، اور میٹنگ میں شریک لوگ چھت سے کود کر بھاگے۔(سیرت ابن ہشام:۲/۵۲۰)مسجد ضرار اس واقعہ کے بعد منافقوں نے اپنی پالیسی بدلی، اور اپنی تخریب کاری کو عبادت وتقدس کے لبادے میں چھپایا، اور ایک میٹنگ ہال متعین کرکے اسے مسجد کا نام دیا، وہاں جمع