بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا ماننے پر تعجب و تحیر کا اظہار کیا ، ان کے بارے میں قرآن کی یہ آیات اتریں : ص، وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّکْرِ،بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فِیْ عِزَّۃٍ وَ شِقَاقٍ،کَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ، وَ عَجِبُوا أَنْ جَائَ ہُمْ مُنْذِرٌ مِنْہُمْ وَ قَالَ الْکَافِرُوْنَ ہٰذَا سَاحِرٌکَذَّابٌ، أَجَعَلَ الاٰلِہَۃَ إِلٰہًا وَاحِداً، إِنَّ ہٰذَا لَشَئٌ عُجَابٌ۔(ص/۱-۵) ص: قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی، کہ جن لوگوں نے کفر اپنالیا ہے ، وہ کسی اور وجہ سے نہیں ، بلکہ اس لئے اپنایا ہے کہ وہ بڑائی کے گھمنڈ اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ، اور ان سے پہلے ہم نے کتنی قوموں کو ہلاک کیا، تو انہوں نے اس وقت آوازیں دیں جب چھٹکارے کا وقت رہا ہی نہیں تھا، اور ان (قریش کے) لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ ایک خبردار کرنے وا لا انہی میں سے آگیا، اور ان کافروں نے یہ کہہ دیا کہ وہ جھوٹا جادوگر ہے ، کیا اس نے سارے معبودوں کو ایک ہی معبود میں تبدیل کردیاہے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۴۱۷-۴۱۹، مختصر السیرۃ: ۹۱)مہربان چچا کی رحلت اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد جناب ابوطالب کی وفات ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت چاہا کہ انہیں قبول حق کی توفیق مل جائے، مگر یہ ان کا مقدر نہ تھا، قرآن نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے: إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِی مَنْ یَشَائُ، وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۔(القصص/۵۶)