بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
قریش کا قتل ہے اور گائے کا ذبح میرے صحابہ کی شہادت ہے۔ (الرحیق المختوم:۳۸۹، بخاری: المغازی:باب من قتل من المسلمین الخ)جبل الرماۃ جنگ کی صبح نماز فجر کے بعد آپ امسلمانوں کو لے کر تیزی سے آگے بڑھے، اور جبل عینین (جو بعد میں جبل الرماۃ کہلایا) پر قابض ہوگئے، میدانِ جنگ میں اس پہاڑ کا بہت اہم اور بنیادی جغرافیائی مقام تھا، دشمن کی طرف سے اس راستے سے ناگہانی حملے کا خطرہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مورچہ پر ۵۰؍تیر انداز صحابہ حضرت عبد صلی اللہ علیہ و سلم للہ بن جبیرؓ کی قیادت میں تعینات کردیئیاور ان کو یہ واضح اور دو ٹوک ہدایات جاری فرمائیں کہ: ’’تمہارا کام دشمن کی فوج پر تیروں سے حملہ بھی کرنا ہے اور دشمن کی فوج کو اس راستے سے مسلمانوں کی پشت پر حملہ آور ہونے سے روکنا بھی ہے، ہم غالب ہوں یا مغلوب، تم کو کسی بھی صورت میں یہ مقام نہیں چھوڑنا ہے، تم دیکھو کہ پرندے ہماری بوٹیاں نوچ رہے ہیں اور ہمیں تمہاری ضرورت ہے، تب بھی تم یہاں سے مت ہٹنا، جب تک تم کو میں خود نہ بلالوں یہ جگہ خالی مت کرنا۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۶۵، فتح الباری :۷/۳۵۰، بخاری: الجہاد:باب مایکرہ من التنازع)فوجی تنظیم اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیزی سے میدان میں جاکر اپنی فوجیں جمادیں ، ۵؍دستوں میں فوجیں تقسیم ہوئیں ، ایک محفوظ دستہ بھی رکھا گیا، ۱۴؍جاں باز صحابہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کے لئے مامور ہوئے، آج جدید جنگی ٹکنالوجی میں ایک اہم چیز ’’تیزی کے ساتھ نقل وحرکت سے دشمن کو حیرت زدہ اور پریشان کردینا‘‘ بھی ہے، یہ ٹکنالوجی انسانیت کو محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم