بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہونے آرہے ہیں ، یہ سن کر مسلمانوں نے بغایت اطمینان ’’حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘ کہا، قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے: الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوا لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا اَصَابَہُمُ الْقَرْحُ، لِلَّذِیْنَ أَحْسَنُوا مِنْہُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِیْمٌ، الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ، فَاخْشَوْ ہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَانًا، وَ قَالُواحَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ۔(آل عمران/۱۷۲-۱۷۳) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار کا فرماں بربادی سے جواب دیا، ایسے نیک اور متقی لوگوں کے لئے زبردست اجر ہے، وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا کہ: یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے (مقابلے) کے لئے ( پھر سے) جمع ہوگئے ہیں ، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تواس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ : ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ مشرکین پر مسلمانوں کے ان جذبات کی خبر سن کر بڑا رعب طاری ہوا، اور وہ تیزی سے مکہ کو روانہ ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حمراء الاسد میں ۳؍دن قیام کیا، مگر دشمن کو حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوسکی۔ (البدایۃ والنہایۃ:۴/۴۸،شرح الزرقانی:۲/۵۹، فتح صلی اللہ علیہ و سلم لباری:۷/۳۷۷)شراب کی حرمت ایک قول کے مطابق ہجرت کا یہ تیسرا سال شراب کی حرمت کا بھی سال ہے۔(شرح الزرقانی:۲/۶۱) شوال ۳؍ہجری میں شراب کی حرمت کا حکم آیا( علامہ قسطلانی ۴؍ہجری کو ترجیح دیتے ہیں ) اور اسے گندگی قرار دے کر اس سے بچنے کی تاکید فرمادی گئی، صحابہ نے اس حکم کی