بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
بہرحال آقا صلی اللہ علیہ و سلم کو قبر میں اتاردیا گیا، حضرت قثمؓ سب سے آخر میں قبر سے نکلے ہیں ، ۹؍اینٹیں بچھادی گئی ہیں ، مٹی ڈالنے کا عمل شروع ہوا، دیر تک چلتا رہا، لوگ بے تابانہ آتے رہے، بادیدۂ نم جاتے رہے۔سوگوار ماحول: ویراں ہے میکدہ،خم وساغر اداس ہیں صحابہ تدفین کے بعد نڈھال وغم زدہ لوٹ رہے ہیں ، حضرت انسؓ بھی آزردہ ہیں ، حضرت فاطمہؓ کے حجرے کے پاس سے گذرے تو حضرت فاطمہؓ نے شدتِ غم سے فرمایا ہے: أَطَابَتْ أَنْفُسُکُمْ أَنْ تَحْثُوْا عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ؟(بخاری: المغازی: باب مرض النبی ووفاتہ) انس! تمہارے دلوں نے کیسے گوارا کرلیا کہ آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد اقدس پر مٹی ڈال کر چلے آؤ۔ بس اس جملے نے گویا دل پر آرے چلادیئے ہوں ، گریہ وزاری کا ناقابل بیان عالم شروع ہوگیا۔حضرت فاطمہؓ کا اظہار غم حضرت فاطمہؓ نے قبر مبارک سے مٹی اٹھائی اور یوں عرض کیا ؎ مَاذَا عَلَیْ مَنْ شَمَّ تُرْبَۃَ أَحْمَدَ اَنْ لَا یَشُمَّ مَدَیْ الزَّمَانِ غَوَالِیَا صُبَّتْ عَلَیَّ مَصَائِبٌ لَوْ أَنَّہَا صُبَّتْ عَلَی الأَیَّامِ صِرْنَ لَیَالِیَا جس نے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے روضے کی مٹی سونگھ لی پھر وہ زندگی بھرکچھ اور