بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
لئے بانٹا ہے ،بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ (البدایۃ والنہایۃ:۴/۳۰۱، سیرت المصطفیٰ:۳/۲۹)عمومی پروانۂ عفو و درگذر آپ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ دے رہے ہیں ، حرم کے صحن میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دی گئی تھیں ، نجاستیں پھینکی گئی تھیں ، ظلم کیا گیا تھا، قریش کے تمام سردار مؤدبانہ کھڑے ہیں ، ان میں وہ بھی ہیں جو اسلام کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاچکے تھے، وہ بھی ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھر پھینکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رخ انور پر تھوکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ میں کانٹے بچھائے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر تلواریں چلائی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عزیز اصحاب کا خون ناحق کیا تھا، ان کے سینے چاک کئے تھے، ان کے دل وجگر کے ٹکڑے کئے تھے، ان کو جلتی ریت پر لٹایا تھا، دہکتے کوئلوں سے ان کا جسم داغا تھا، نیزوں سے ان کا بدن چھیدا تھا، یہ سب سر جھکائے کھڑے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں : مَا تَرَوْنَ أَنِّي فَاعِلٌ بِکُمْ؟ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا؟ بس اسی ایک سوال نے ان ظالموں کے سامنے گذشتہ تیرہ سالہ مکی زندگی کا پورا منظر رکھ دیا تھا، انہوں نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا: خَیْراً، أَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ أَخٍ کَرِیْمٍ۔ ہم آپ سے بھلائی ہی کی امید رکھتے ہیں ، آپ کریم النفس ہیں اور کریم زادے ہیں ۔ آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جواب میں فرمایا تھا: