بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
بالآخر وہ ابوخیثمہ ہی نکلے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی آمد سے دلی مسرت ہوتی ہے۔(ایضاً)مدائن صالح سے گذر اور نبوی تنبیہ اسی سفرمیں ہلاک شدہ قوم ثمود کی معذب بستی ’’حجر‘‘ (مدائن صالح) سے بھی قافلہ گذرا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمادیا کہ اس علاقے سے تیزی سے گذرو، روتے ہوئے، عذابِ الٰہی سے ڈرتے ہوئے، پچھلوں کے انجام بد سے سبق لیتے ہوئے گذرو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود چادر سے سر اور چہرہ ڈھک لیا اور تیزی سے سواری گذار دی، کچھ صحابہ نے وہاں سے پانی لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ پانی پھنکوادیا۔ (بخاری:احادیث الانبیاء: باب قول اللہ تعالیٰ: والی ثمود الخ) اس طرح یہ پیغام دیا کہ یہ معذب بستیاں عبرت گاہ ہیں ، نہ کہ تفریح گاہ، سیرتِ نبوی کا یہ باب موجودہ دل دادگانِ سیر وسیاحت کے لئے کھلا پیغام ہے۔تبوک آمد، قیام اور واپسی ایک ماہ کی مسافت طے کرکے یہ قافلہ تبوک پہنچا ہے، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا ہے کہ رومن فوجیں سرحد سے دور ہیں ، ان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کی دھاک جمی ہوئی ہے، وہ ٹکرانے کے موڈ میں نہیں ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے اس سفر کا مقصد رومیوں کو مرعوب ہی کرنا تھا، اور اللہ کے فضل سے بغیر جنگ کے یہ مقصد حاصل ہوگیا تھا، ۲۰؍ دن قیام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واپسی فرمائی اور بعافیت یہ قافلہ مدینہ منورہ پہنچا۔(طبقات:۱/۴۵۷) اس غزوہ نے جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کے استحکام پر آخری مہر لگادی، اور سب کو یقین ہوگیا کہ جزیرۃ العرب میں اب صرف اسلام کی طاقت ہی غالب وزندہ رہے گی، اس غزوہ نے منافقوں کو بھی بالکل بے نقاب کردیا، ان کے حوصلے بالکل پست ہوگئے اور حالات نے انہیں بالکل ننگا کردیا۔