بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
مسجد نبوی کی تعمیر حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں قیام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سب سے پہلی فکر یہ تھی کہ مسلمانوں کے مرکز کے طور پر مسجد کی تعمیر عمل میں آئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیام گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک وسیع کھلیان تھا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی مملوکہ زمین ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بلایا، فرمایا کہ میں یہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتا ہوں ، وہ بخوشی راضی ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیمت طے کرنی چاہی، وہ ہدیہ کرنے پر مصر رہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باصرار قیمت ادا کی۔ (بخاری:الصلوۃ: باب ہل تنبش قبور الخ، الکامل: لابن الاثیر:۲/۱۷۲) روایات کے مطابق قیمت دس دینا ر طے ہوئی، اور امام زہری کے بقول یہ قیمت سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ نے ادا فرمائی۔ (وفاء الوفا:۳۷۹، بحوالہ واقدی، صدیق اکبر: ۵۳، فتح الباری:۷/۱۹۲) اس کے بعد تعمیر مسجد کا عمل شروع ہوا، مسجد کا عرض بھی ۱۰۰؍فٹ رکھا گیا، اور طول بھی ۱۰۰؍فٹ، تقریباً دس ہزار اسکوائر فٹ جگہ گھیری گئی۔(خطبات سیرت: مولانا سلمان حسینی ندوی:۱۷۲) مسجد نبوی کی تعمیر کا واقعہ اپنے دامن میں امت کے لئے عظیم پیغام فکر وعمل لئے ہوئے ہے۔سب سے پہلے مسجد قائم کرنے کی مبارک سنت آپ غور فرمائیے کہ مدینہ پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے پہلا کام یہی کیا، اس طرح دنیا کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سنت آئی کہ مسلمانوں کو اپنی آبادی بسانے اور کالونی قائم کرنے کا آغاز مسجد سے کرنا چاہئے، کوئی بھی مسلم کالونی بسائی جائے تو گھروں کی تعمیر سے پہلے مسجد کی تعمیر کی فکر ہونی چاہئے، مسلمانوں کی شناخت اور مرکزیت مسجد سے وابستہ ہوتی ہے، مسلمانوں کے ایمانی واجتماعی وجود کے لئے مسجد ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتی ہے، کسی مسلم