بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
میں ایک دوسرے سے جھگڑا کیا ہے۔ انفرادی حملے میں مسلمان حاوی رہے۔اجتماعی مقابلہ آرائی اس کے بعد عام مقابلہ آرائی شروع ہوتی ہے، کفار کو اپنی طاقت اور تعداد پر ناز تھا، مسلمان اللہ کی نصرت پر بھروسہ کئے ہوئے تھے، اللہ نے اپنے فرشتوں کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت فرمائی۔ قرآن کہتا ہے: إِذْ یُوحِی رَبُّکَ إِلَی الْمَلٰئِکَۃِ أَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ آمَنُوا، سَأُلْقِی فِی قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فاَضْرِبُوْا فَوْقَ الأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ، ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ شَاقُّوا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، وَمَنْ یُشَاقِقِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَإِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔ (الانفال: ۱۲-۱۳) یاد کرو جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی کے ذریعہ حکم دے رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، اب تم مؤمنوں کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا، پھرتم گردنوں کے اوپر وار کرو، اور ان کی انگلیوں کے ہر ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ، یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی مول لی ہے، اور جو اللہ ورسول سے دشمنی مول لیتا ہے تو یقینا اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔آسمانی مدد حضرات! میدانِ بدر میں گھمسان کا رن جاری ہے، مجاہدین اسلام استقامت اور