بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
لشکر کی روانگی اور حضرت علی ؓکا مدینہ میں قیام رجب ۹؍ہجری میں لشکر اسلامی روانہ ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی انتظامی ذمہ داری حضرت محمد بن مسلمہ کے سپرد کی ہے۔(سیرت المصطفی:۳/۸۸) اور خصوصی نگرانی کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مقرر فرمایا ہے، حضرت علی نے شرکت جہاد کی آرزو ظاہر کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ إِلاَّ أَنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِيْ۔(بخاری: المغازی:باب غزوۃ تبوک) تم اس وقت میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے، ہاں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ یہ اعزاز حضرت علیؓ کو عطا ہوا، اور یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ منافقوں کی موجودگی میں مدینہ منورہ کی داخلی نگرانی کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسی قد آور اور صاحب بصیرت وفراست شخصیت کا قیام ضروری ہے۔قافلۂ جہاد: دورانِ سفر قافلۂ جہاد تبوک کی طرف محو سفر ہے، ایسا لگتا ہے کہ سفر کی تمام صعوبتیں اور مشقتیں ان مجاہدین حق کے لئے سہل بنادی گئی ہوں ، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ قافلے سے اِکا دُکا لوگ پھرجاتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر ملتی تو فرماتے کہ: اگر اس میں کچھ بھی خیر ہوگی تو وہ ہم سے آملے گا، ورنہ بہتر ہوا کہ اس سے نجات مل گئی۔(سیرت احمد مجتبی:۳/۳۰۵) اس طرح یہ سفر اہل ایمان اور منافقوں کے درمیان کسوٹی اور فاصل بھی ثابت ہوا۔