بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ علم اپنے دشمنوں سے ملے تو بھی اسے سیکھا جائے، اسی کو ایک حدیث میں فرمایا گیا: اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ فَحَیْثُ وَجَدَہَا فَہُوَ أَحَقُّ بِہَا۔ (مشکوٰۃ : کتاب العلم) علم وحکمت مؤمن کا گم شدہ سامان ہے، جہاں سے ملے بغیر کسی ذہنی تحفظ کے حاصل کیا جائے۔ دوسری طرف دوسرے قیدیوں سے مالی فدیہ وصول کرکے باعزاز واکرام رخصت کیا گیا، قیدیوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بھی تھے، ان کا فدیہ آیا تو اس میں حضرت زینب نے وہ ہار بھی بھجوایا جو ان کی ماں ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں شادی کے موقع پر دیا تھا،اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک دم حضرت خدیجہ یاد آگئیں ، رقت طاری ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم آب دیدہ ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے کہہ کر وہ ہار واپس کرایا۔(سیرت ابن ہشام:۲/۶۵۳-۶۶۰) بہرحال جنگی قیدیوں کی رہائی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا فیصلہ پوری انسانیت پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا احسانِ عظیم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کے ذریعہ پیغمبر اکا یہ اسوہ امت کے سامنے آیا کہ دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک و مدارات اور فیاضی، بدخواہوں کے ساتھ بھی خیر خواہی اور سیرچشمی کا معاملہ ہونا چاہئے، اسلا م میں صرف یہ مطلوب نہیں کہ جو ہم سے اچھا معاملہ کرے ہم اس سے اچھا معاملہ کریں بلکہ یہ بھی مطلوب ہے کہ جو ہمارے ساتھ برا معاملہ کرے، ستائے، بد خواہ ہو، اس کے لئے بھی اپنے دل کے دروازے کھلے رکھیں ، دشمنی سے لبریز اور عداوت سے پر دلوں اور سینوں میں محبت اور الفت کے جذبات منتقل کرنے کی کلید یہی حسن اخلاق و سلوک ہے ۔