بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
تَاٰخَوا فِي اللّٰہِ أَخَوَیْنِ أَخَوَیْنِ۔ تم لوگ دو دو شخص اللہ کے لئے بھائی بھائی بن جاؤ۔ (فتح الباری:۷/۳۱۷، رسول صلی اللہ علیہ و سلم کرم کی سیاسی زندگی: ڈاکٹر محمد حمید اللہ: ۲۷۸) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا تھا: ’’ہٰذَا أَخِیْ‘‘ یہ میرا بھائی ہے ۔(فتح الباری:۷/ ۳۱۷) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یکساں ذوق وحال رکھنے والے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بلابلاکر فرمایا کہ: تم دونوں بھائی ہو، ایک مجلس میں جہاں ۹۰؍انصار ومہاجرین تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو دو کی جوڑی بنادی، اور انصار سے فرمایا کہ: ’’اپنے مہاجر بھائی کو اپنے مکان میں رکھو، دونوں ساتھ کماؤ، جب مہاجر خود اپنا انتظام کرلیں گے تب الگ ہوجائیں گے‘‘۔ (الرحیق المختوم: ۲۹۰) اس بھائی چارہ کا یہ فائدہ ہوا کہ مہاجرین وانصار سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اور ایک جان دو قالب ہوگئے، اس سے بے سہارا مہاجرین کو ٹھکانہ فراہم ہوا، یہ مواخات اتنی مکمل تھی کہ جس طرح سگے بھائیوں میں وراثت جاری ہوتی ہے، ان انصار ومہاجرین کو ایک دوسرے کی وراثت ملنے لگی، ایک مدت تک ایسا رہا، پھر وراثت کا یہ حق منسوخ ہوا اور وراثت کو نسبی رشتہ داروں کے ساتھ مختص کردیا گیا۔ غور فرمائیے! مواخات کے اس پورے عمل میں انصار کی حیثیت دینے والوں کی اور مہاجرین کی حیثیت پانے والوں کی تھی، مگر قربان جائیے انصار پر کہ انہوں نے ایثار، محبت اور ہم دردی کے جو نمونے پیش کئے وہ پوری انسانیت کی تاریخ میں فقید المثال ہیں ، ہر انصاری نے اپنا پورا اثاثہ نصف نصف تقسیم کرکے آدھا خود لیا، باقی آدھا اپنے مہاجر بھائی کو پیش