بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہے تو واقعہ سچ ہے، وہ غلط کہہ ہی نہیں سکتے۔‘‘ اسی دن آپ کو ’’صدیق‘‘ کا لقب عطا ہوا۔(سیرۃ ابن ہشام:۱/۳۹۹، دلائل النبوۃ للبیہقی:۲/۳۶۰، المستدرک للحاکم:۳/۶۲) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن کون تھا؟ فرمایا: جب مجھے حطیم کے پاس گھیرا گیا اور پوچھا گیاکہ: مسجد اقصیٰ میں کتنے دروازے، طاقچے اور روشن دان ہیں ؟ یہ نازک موقع تھا؛ لیکن اللہ نے مسجد اقصیٰ کی پوری تصویر ونقشہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ بتایا وہ بے کم وکاست درست تھا، اس نے مخالفین کی عقلیں حیران اور زبانیں گنگ کردیں ، اس واقعہ پر ایک مدت گذر چکی تھی، ابوسفیان روم کے قیصر کے دربار میں ہیں ، موضوعِ گفتگو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہے، ابوسفیان نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رسوا کرنے کے لئے یہ بھی کہا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ راتوں رات وہ مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمان گئے، اور صبح سے پہلے آگئے، یہ سن کر قیصر کی مجلس کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور بولا: میں وہ رات جانتا ہوں ، لوگوں نے کہا: کیسے؟ بولا! اس زمانے میں مسجد اقصیٰ کے دروازے بند کرنے کی ڈیوٹی میری تھی، ایک دن ہم سب دروازے بند کررہے تھے، مگر صدر دروازہ بند ہی نہیں ہورہا تھا، سب نے زور لگالیا، مستری بلایا، مگر وہ اتنا جام تھا کہ نہ بند ہوا، صبح کے لئے کھلا چھوڑدیا گیا، صبح ہم پہنچے تو دروازہ بالکل ٹھیک تھا، ایسا لگا جیسے وہاں کوئی جانور باندھا گیا ہو، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: رات دروازے کا کھلا رہنا صرف اسی نبی کے لئے تھا، جس کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی، یہ وہی رات تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سفر معراج میں تشریف لے گئے تھے، اللہ نے غیروں کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کا اقرار کرایا۔ وَالْفَضْلُ مَا شَہِدَتْ بِہٖ الأَعْدَائُ۔(دلائل النبوۃ للبیہقی:۲/ ۳۶۱، سیرت احمد مجتبیٰ:۱/۴۰۴)