بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
(۸) زنا نہ کرنا (وَلَا تَقْرَبُوْاالزِّنَا) (۹) قتل ناحق نہ کرنا (وَلَاتْقَتُلُوْا النَّفْسَ۔۔۔) (۱۰) یتیم کے مفاد کی حفاظت اور حسن سلوک (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ) (۱۱) وفائے عہدکرنا (وَاَوْفُوْابِالْعَہْدِ) (۱۲) ناپ تول میں برابری (وَزِنُوْا بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ) (۱۳) انفرادی واجتماعی زندگی میں وہم وظن کے بجائے علم ویقین کی پیروی (وَلَا تَقْفُ۔۔۔) (۱۴) تکبر نہ کرنا (وَلَا تَمْشِ۔۔۔) (تفصیل کے لئے دیکھئے: سیرت سرور عالم:۲/۶۶۲- ۶۶۷) آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ پیغام لے کر واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے ہیں ، ابھی رات باقی ہے، بستر گرم ہے، ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہو، یہ پیغمبر علیہ السلام کا عظیم معجزہ تھا، جو کسی اور نبی کو نہیں ملا، مگر اللہ نے اس اعزاز کا تذکرہ کیا تو فرمایا: سُبْحَانَ الَّذِی اَسْرَی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً۔(بنی اسرائیل/۱) پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا۔ یہاں ’’عبد‘‘ کا لفظ ذکر کیا گیا ہے، اس طرح یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اللہ کو اپنے بندوں کی جو ادا سب سے پیاری ہے وہ عبدیت اور بندگی کی ادا ہے، بندہ اپنے مالک کو سب سے پیارا اسی وقت لگتا ہے جب وہ بندگی کے جوہر دکھاتا ہے، اور یہی مقصد تخلیق ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالِانْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ۔(الذاریات/۵۶) میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ معراج کا واقعہ مکہ میں بیان کیا جاتا ہے، تو اسے مذاق کا موضوع بنایا جاتا ہے، مکہ کے دشمن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف پروپیگنڈے بڑھادیتے ہیں ،حضرت صدیق اکبر ؓکے پاس مشرکوں کا وفد گیا، ان کو خبر دی گئی، مقصد تھا کہ ابوبکرؓ انکار کردیں ، مگر انہوں نے بلاتاخیر کہا کہ: ’’ کوئی اور کہے تو میں یقین نہیں کرتا، لیکن اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا