بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ناراضگی کا میں شکار ہوجاؤں ، آپ ہی کی رضا مطلوب ہے ، یہاں تک کہ آپ خوش ہوجائیں ، اور آپ ہی کی توفیق اور مدد سے گناہوں سے بچنا اور نیک کام کرنا ممکن ہوسکتا ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۵/ ۳۴۶، سیرت ابن ہشام :۲/۴۲۰) آپ صلی اللہ علیہ و سلم طائف کی آبادی سے مظلومانہ لہولہو نکل رہے ہیں ، راستے میں انگوروں کا باغ تھا، جس کے مالک مکہ کے دو دولت مند بھائی عتبہ وشیبہ تھے، انہیں کوئی غیرت تو نہ آئی، ذراسی ہم دردی ہوئی، اپنے نصرانی غلام عدّاس کے ہاتھ انگور بھجوادئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کردیا، عداس حیرت سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھنے لگا،بولا کہ یہ جملہ تو یہاں کے لوگ نہیں بولتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم کہاں کے ہو، تمہارا دین کیا ہے؟ عداس نے کہا: میں نینوا کا ہوں ، دین مسیحی پر قائم ہوں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اچھا تم مرد صالح یونس بن متیٰ کے ہم وطن ہو، عداس کی آنکھیں فرط تحیر سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ، پوچھا کہ آپ یونس کو جانتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یونس میرے بھائی ہیں ، وہ بھی خدا کے نبی تھے، میں بھی خدا کا نبی ہوں ، یہ سن کر عداس والہانہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں پر گرپڑا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر اور ہاتھ چومے، عرض کیا : أَشْہَدُ أَنَّکَ عَبْدُ اللّٰہ وَرَسُوْلُہُ۔ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ کے اللہ بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ عداس واپس ہوا، تو اس کے آقاؤں نے کہا کہ یہ کیا معاملہ تھا؟ بولا: میرے آقا! روئے زمین پر اس شخص سے بہتر کوئی انسان نہیں ہے، اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے کہ جو نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہ اس دور کے نبی ہیں ، ان کو نقصان پہنچانے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ (الروض الانف:۲/۲۳۴، سیرت ابن ہشام: ۱/۴۱۹-۴۲۲، سیرت سرور عالم: ۲/۶۳۳-۶۳۶، رسول رحمت: آزاد/۱۵۱-۱۵۲)