بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
پیغمبر علیہ السلام کی مظلومیت کا یہ منظر دیکھ کر اللہ کی غیرت جوش میں آجاتی ہے، ہوا کا فرشتہ حاضر خدمت ہوتا ہے، اجازت دیجئے کہ ان ظالموں کو تیز ہواؤں کے ذریعہ اکھاڑ اور پٹخ دیا جائے، پہاڑوں کا فرشتہ آتا ہے،عرض کرتا ہے: إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْہِمُ اْلأَخْشَبَیْنِ؟ اجازت دیجئے،کہ ان ظالموں کو دونوں پہاڑوں کے بیچ پیس دیا جائے۔ طائف کے اوباشوں کا زخم خوردہ مظلوم پیغمبر کہتا ہے کہ میں ان کے لئے بددعا نہیں کرتا، یہ نہیں تو ان کی نسلیں ایمان لائیں گی۔ اَللّٰہُمَّ اہْدِ قَوْمِيْ فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ اے اللہ: میری قوم کو ہدایت دیجئے ، یہ حق نہیں جانتی ؎ جناب رحمۃ للعالمیں نے سن کے فرمایا کہ میں اس دہر میں قہر وغضب بن کر نہیں آیا (دیکھئے: صحیح بخاری: کتاب بدء الخلق: ۳۲۳۱، صحیح مسلم: کتاب الجہاد: باب ما لقی النبیامن اذی المشرکین و المنافقین، زاد المعاد:۱/ ۳۰۲) یہ ہے کردار اس نبی کا جسے ’’رؤف ورحیم‘‘ کا لقب دیا گیا اور فرمایا گیا: لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بَالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وفٌ رَحِیمٌ۔(التوبہ/۱۲۸) تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے ، جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے ،جسے تمہاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے ،جو مومنوں کے لئے انتہائی شفیق، نہایت مہربان ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے کردار کی مثال تلاش کرکے بھی نہیں پائی جاسکتی۔