بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اسلام نہیں ہوئے ہیں ، شکار سے لوٹ رہے ہیں ، لونڈی پورا قصہ سناتی ہے، خاندانی غیرت جوش میں آتی ہے، ابوجہل کے پاس پہنچتے ہیں ، زور سے اس کے سر پر کمان مارتے ہیں ، کہتے ہیں : ’’میرے بھتیجے پر ظلم کرتے ہو، میں بھی انہیں کے دین کو اختیار کرتا ہوں ، ہمت ہو تو میدان میں آؤ، جو کرسکتے ہو کرلو‘‘۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس واپس آتے ہیں ، کہتے ہیں : میں نے تمہارا بدلہ لے لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: چچا مجھے بدلے کی نہیں ، آپ کے کلمہ کی ضرورت ہے، میں اس سے خوش نہیں ہوا کہ آپ نے بدلہ لے لیا، میں تو جب خوش ہوں گا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام کا ستون بن جائیں گے۔(طبقات ابن سعد:۳/۹، سیرت ابن ہشام:۱/ ۲۹۲) غور فرمائیے! اس ایک جملے میں کیا فکر مضمر ہے، ہمارے پیغمبر اکو اور اس دین کو بدلہ نہیں ، حق کا اعتراف عزیز ہے، یہ دین اس کا محتاج نہیں کہ اس کے لئے بدلہ لیا جائے، اس کی نگاہ میں سب سے قیمتی چیز یہ ہے کہ حق کے دامن رحمت میں لوگ پناہ لے لیں ، یہ مزاج بنایا گیا کہ اسلام میں خاندانی عصبیت وحمیت مطلوب نہیں ؛ بلکہ حق کا اقرار واعتراف مطلوب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس جملے نے حضرت حمزہ کی کایا پلٹ دی، ان کی خاندانی حمیت نے ایمانی حمیت کا قالب وپیکر اختیار کرلیا، اور بلاتاخیر انہوں نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، اللہ نے اسلام کو ان سے قوت بخشی، پھر دنیا نے دیکھا کہ کس جگر سے انہوں نے معرکے لڑے، احد میں شہید ہوئے اور ’’سید الشہداء‘‘ کا لقب پایا۔ حضرت حمزہ کے قبولِ اسلام نے اہل کفر کے کلیجے شق کردئے، یہ کیا ہورہا تھا: بَدَأ الإِسْلَامُ غَرِیْباً۔ اسلام کا آغاز تو کسمپرسی کے عالم میں ہوا تھا۔