آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اہل علم وارباب فتاویٰ کو ذاتی معاملات میں کیا کرنا چاہئے ایک روز بیٹھے ہوئے اچانک خیال آیا کہ والد مرحوم نے چار شادیاں کیں تو چار دین مہر کے والد صاحب قرضدار ہوئے اور اس قرض کا اداء یا ابراء مشکوک جس کا کچھ پتہ نہیں والد صاحب نے کافی ترکہ چھوڑا تو دیون ترکہ سے متعلق ہوگئے اس ترکہ سے مجھ کو بھی حصہ پہنچا تو اسی نسبت سے دین میرے بھی ذمہ ہوگیا گو اس زمانہ میں معافی مہر کا رسم غالب بلکہ عام تھی اس لیے مجھ کو تردد ہوا۔ مگر صاحب غرض ہونے کی وجہ سے اپنی رائے پر وثوق نہیں کیا بلکہ چند علماء سے تحریری بھی اور زبانی بھی استفتاء کیا جس کے جواب میں علماء کے مختلف جوابات آئے مگر یہی طے کیا کہ شبہ کی حالت میں دوسروں کا دے دینا تو چاہئے ، اپنا لینا نہیں چاہئے اگر اپنا حق ہو بھی تو معاف کردینا چاہئے اس لیے ایک عالم سے فرائض نکلواکر اس قدر رقم جدا کردی جس قدر رقم میرے ذمہ آئی۔۱؎فصل صحیح جواب نہ معلوم ہونے کی صورت میں بتکلف جواب دینے کی مذمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر تو کوئی عقل مندنہیں حتیٰ کہ کفار بھی حضورﷺ کو عاقل ہونے کو تسلیم کرتے ہیں (الغرض)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاقل ہونے میں کسی کو کچھ شبہ نہیں ، مگر باوجود اس کے حضور ﷺ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ سے دریافت کیاگیا کہ خیرالبقاع(بہترین جگہ) کونسی جگہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں ،جبرئیل علیہ السلام سے پوچھ کر بتلاؤں گا ،حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے توآپ ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۲؍۱۹۰۔