آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
رجوع واعتراف کے چند نمونے امام کے علاوہ سامع کو بھی تراویح میں اجرت لینا جائز نہیں (حضرت تھانویؒ ایک وعظ میں ارشاد فرماتے ہیں )ایک مسئلہ اور ہے اس میں مجھ سے غلطی ہوچکی ہے وہ یہ ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ سامع کو (یعنی امام کے پیچھے حافظ مقتدی جو لقمہ دینے کی غرض سے متعین ہواس کو )روپیہ لینا (بطوراجرت کے) جائز ہے ،میں اس کو تعلیم پر قیاس کرتا تھا ،(چنانچہ میں نے فتویٰ دیا تھا کہ) ’’سماعت قرآن سے غرض یہ ہے کہ جہاں بھولے گا بتلائے گا پس یہ تعلیم ہوئی اور تعلیم پر اجرت لینے کے جواز پر فتویٰ ہے ‘‘۔۱؎ لیکن پھر سمجھ میں آیا کہ یہ قیاس صحیح نہیں اس لئے کہ(بحالت صلوٰۃ) تعلیم سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور سامع کے بتلانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ،اور نیز بھولے ہوئے کو بتلانا نماز کی اصلاح ہے اور اصلاحِ نماز عبادت ہے اس لئے نہ قاری کو (یعنی امام صاحب کو اجرت لینا ) جائز ہے نہ سامع کو ،یہ دونوں فتوے قواعد کلیہ سے دیئے گئے ہیں ، اگر اس کے خلاف کسی کو جزئیہ معلوم ہوتو میں اس سے بھی رجوع کرلوں گا۔۲؎صوم یوم عاشورہ کے مسئلہ میں رجوع بندہ اب تک یہ فتویٰ دیتا تھا کہ دسویں محرم کا ایک روزہ رکھنا بلاکراہت درست ہے ،مگر درمختار وغیرہ میں اس کے خلاف جزئیہ نکلا لہٰذا میں اس سے رجوع کرکے اب اس جزئیہ کے موافق فتویٰ دیتاہوں کہ:’’ دسویں تاریخ محرم کو اکیلاروزہ رکھنا مکروہ ہے ،اس کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھنے سے کراہت دورہوگی ،اسی طرح اگر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا بھی رکھ لے تب ------------------------------ ۱؎ امدادلفتاویٰ ۴۹۶ج۱ ۲؎ ا لتہذیب ملحقہ حقوق وفرائض ص۴/۲۱۵