آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مکالمہ نمبر ۵ ایک مولوی صاحب نے کشمیر کے متعلق چند سوالات کئے اس پر حضرت والانے فرمایا کہ امیر پر یاد آیا ایک ڈاکٹر صاحب ہیں پنجاب میں بہت ہی مخلص اور سمجھ دار شخص ہیں زمانۂ تحریک خلافت میں ان کے ایک عزیز بڑے ہی جوش اور سرگرمی کے ساتھ حصہ لیے ہوئے تھے،ڈاکٹر صاحب ان معاملات سے یکسو تھے ایک روز ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ اس تحریک میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟ ڈاکٹر صاحب نے میرا نام لے دیا کہ وہ شریک نہیں اس لیے میں کوئی حصہ نہیں لے سکتا، یہ سن کر بولے کہ میں اس کو تو پانچ منٹ میں اپنے ساتھ کرلوں گا دیکھیں کیسے شریک نہیں ہوتے، مجھ کو تھانہ بھون لے چلو میں گفتگو کروں گا، ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ مجھ سے بیان کیا کہ میرے بھائی ایسا کہتے ہیں ، اگر اجازت ہو ساتھ لے کر آؤں ، میں نے لکھ دیا کہ ضرور لاؤ ،ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو اس قدر ذہین ہو، مجھے خود ان سے ملاقات کا اشتیاق ہوگیا، اس لیے کہ ایسا ذہن آدمی کہاں ملتا ہے۔ میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میری ہمیشہ یہ نیت رہی اور ہے کہ مسلمان تو بڑی چیز ہیں اگرمجھ کو بھنگی کا بچہ بھی سمجھا دے، میں مان لوں گا، خدا نخواستہ کوئی ضد یا ہٹ تھوڑا ہی ہے، ہاں اسی کے ساتھ یہ بھی نیت رہی کہ بدون مسئلے کو سمجھے ہوئے ایک انچ بھی قدم نہ اٹھاؤں گا، دوسرے یہ ہے کہ مصالح وغیرہ کو شریعت مقدسہ پر مقدم نہیں کرسکتا، یہ میرا فطری امر ہے میں اس میں مجبور ہوں ، مجھ سے مصالح پرستی نہیں ہوسکتی، مصالح تو یہاں پر پیس دئیے جاتے ہیں ، میں تو کہا کرتا ہوں کہ مصالحوں کو سل پر خوب پیسا جائے، جتنا پیسا جائے گا اتنا ہی سالن لذیذ ہوگا۔ فرمایا کہ مصالح پر یاد آیا جان سے بڑھ کر تو کوئی مصالح نہ ہوں گے، جس زمانہ میں تحریک خلافت کا شباب تھا ،شورش پسند طبیعتیں جوش میں بھڑک رہی تھیں ۔