آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اصل اکثر علماء کے باہم مخالفت کی، اس میں قصور عوام کا تو ہے ہی مگر علماء کی بھی یہ کوتاہی ضرور ہے کہ کیوں فضول باتوں کے جواب کے لئے تیار ہوجاتے ہیں جس کے یہ نتائج ہوتے ہیں یہ کونساکمال ہے کہ جواب میں سائل کے بھی مذاق کا اتباع کیا جائے جب ہم کو معلوم ہوجائے کہ یہ سوال بے ضرورت کیا جاتا ہے اور اس کے یہ نتائج ہونے والے ہیں تو ہم سکوت کیوں نہ اختیارکرلیں ، میں تو اس سوال کا جواب دینا بھی پسند نہیں کرتا جس میں گوکچھ بھی مفاسد نہ ہوں لیکن بے ضرورت ہو کیونکہ کم سے کم تضییع وقت(یعنی وقت کو ضائع کرنا) تو ہے ہی، یہ فضول ایسا ہے جیسا کوئی سائل آکر پوچھے کہ تم نے مکان کتنے گززمین میں بنوایا ہے، تو کون عقلمند ہے کہ اس کا تحقیقی جواب دینے کے لئے تیار ہوجائے گا؟ بس اس کا جواب یہی دے گا کہ اس سوال سے غرض بتلاؤ؟ جب غرض صحیح نہیں ہے توہم جواب بھی نہیں دیتے پھر بھی برتاؤ ان سائلوں کے ساتھ نہیں کیاجاتا جو دین کے متعلق بیکار سوال کرتے ہیں ۔اس کثرت سوال کو بھی منع فرمایاگیا ہے۔۱؎غیر ضروری سوال کرنے اور دقیق بحثوں میں پڑنے اور دلیلوں کے پوچھنے کا نقصان کثرت سوال کے ایک معنی وہ بھی ہیں جس کا ترجمہ ہے بہت پوچھنا یعنی وہ باتیں پوچھنا جو ضرورت اور اپنے حوصلہ سے باہر ہوں جیسے لوگوں نے آج کل مشغلے کرلئے ہیں کہ جب پوچھتے ہیں تو تقدیر کا مسئلہ اور وحدۃ الوجود کا مسئلہ پوچھتے ہیں جو ایسے باریک مسئلے ہیں کہ بڑے بڑے عقلاء نے ان میں سرمارا اور کچھ نہ پاسکے اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ مسئلے صحیح نہیں ، مسئلے بالکل صحیح ہیں اور عقل سے خارج بھی ------------------------------ ۱؎ذم المکروہات ملحقہ الاح اعمال ص۴۵۰،۴۵۱