آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
قاضی شرعی کے لئے مسلمان اور صاحب حکومت ہو ناشرط ہے فریقین کی رضامندی سے حَکَم بھی قاضی کے قائم مقام ہوتا ہے قاضی اور حَکَم کافرق اگرکسی جگہ کے مسلمان از خود کسی کو قاضی بنانا چاہیں تووہ قاضی نہ ہوگا محض حَکَم اور ثالث ہوگا جس کا فیصلہ اسی وقت مفید ہوسکتا ہے جب کہ مدعی ومدعی علیہ دونوں اپنا معاملہ اس کے سپرد کردیں اور اگر ایک فریق سپردکرنا چاہے دوسرانہ چاہے تو اس صورت میں ثالث اور حکم کافیصلہ کسی درجہ میں بھی معتبرنہیں ۔ قال فی العالمگیریۃ :والقضاء فی الشرع قول ملزم یصدرعن ولایۃ عامۃ ولا تصح ولایۃ القاضی حتٰی یجتمع فی المولیّٰ شرائط الـشہـادۃ کذافی الہـدایۃ من الاسـلام والتـکلیف والـحـریۃ الـخ (ص۱۶۰ج۴) وفیہا ایضا واذااجتمـع اہل بلدۃ عـلـی رجل وجعلوہ قاضیایقضی فہما بینہم لایصیرقاضیا الخ ۔ (ص۱۶۴ج۴) ان عبارات میں تصریح ہے کہ قاضی کے لئے مسلمان ہونا صاحب حکومت ہونا شرط ہے اور یہ کہ کسی جگہ کے مسلمان از خود کسی کو قاضی بنالیں تووہ قاضی نہ ہوگا، اور ظاہر ہے کہ صاحب حکومت قاضی وہی ہوسکتا ہے جو سلطنت کی طر ف سے مقرر کیا جائے، اس لئے گورنمنٹ کی امداد کے اس مسئلہ میں مسلمانانِ ہند سخت محتاج ہیں ، کیونکہ بدون قاضی کے بعض مسائل میں ان کادین برباد ہوتا ہے اور غیر مسلم حکاّم کا فیصلہ ان مسائل میں جوقضاء قاضی کے محتاج ہیں محض لغواور کالعدم ہے ۔ (القول الماضی ص۲۳) (الغرض) قاضی کے لئے صاحب حکومت ہونا رکنِ قضا ہے کہ جس مقام پر وہ