آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بس وہ غیر مقلد کے یہاں دہلی پہنچا کسی نے کہہ دیا کہ اگر پانچ گھونٹ سے کم پئے ہوں تو حلال ہے ورنہ حرام ہے بس سائل نے سن کر فوراً سوال قائم کرلیا کہ کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ زید جس نے ایک عورت کا دودھ پانچ گھونٹ سے کم پیا ہے اور ہندہ جس نے پوری مدت اسی عورت کا دودھ پیا ہے تو یہ ہندہ اس زید کے نکاح میں حلال ہے یا نہیں ؟ بینوا وتوجروا۔ بس کیا تھا انہوں نے لکھ دیا کہ یہ مسئلہ حلال ہے ان کے یہاں تو یہ مسئلہ ہے ہی، ایک حنفی عالم نے بھی فتویٰ دیکھ کر کہہ دیا کہ کیا حرج ہے یہ بھی تو ایک مذہب ہے مگر پوچھنا تو یہ ہے کہ آیا سوال کا واقعہ جواب سن کر تراشا گیا یا وہاں بیٹھ کر کسی نے گھونٹ شمار کئے تھے۔۱؎حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا معمول (اسی لیے) میرا معمول ہے کہ خود تشقیق نہیں کرتا اور جہاں تشقیق ہوتی ہے سائل سے ہی پوچھتا ہوں (کہ کون سی شق کا وقوع ہوا ہے) تاکہ دونوں شقوں کا حکم دیکھ کر سائل مفید شق کا دعوے نہ کرنے لگے، نیز بعض اوقات شقوں کا حکم باہم مختلط ہوجاتا ہے۔۲؎اپنے جہل کو چھپانے کے لئے خوامخواہ کی تشقیق نہ کیجئے ایک معقولی طالب علم سے کسی نے مسئلہ پوچھا کہ گلہری کنویں میں گرگئی ہے اس کا کیاحکم ہے؟ طالب علم صاحب کو مسئلہ تو معلوم نہ تھا مگر جہل کا اقرار کیسے کریں ، آپ نے معقولی تشقیقات شروع کیں کہ وہ جو گری ہے تو دوحال سے خالی نہیں یا توکسی نے گرائی ہے یا خود گری ہے ،آہستہ گری ہے یازور سے ،پھر یہ بھی دوحال سے خالی نہیں ------------------------------ ۱؎ ملفوظات ۱۵۱۔ ۲؎ حسن العزیز ۳؍۱۷۴۔