آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جو عوام کے سمجھنے کے نہیں ہوتے مثلاً تقدیر کا مسئلہ یا تصوف کا کوئی باریک مسئلہ مثلاً وحدۃ الوجود۔ فرض کیجئے کہ کوئی عامی شخص ایسا مسئلہ پوچھتا ہے اس کو کیا جواب دیا جائے گا یہی کہ بھائی! یہ تیری سمجھ سے باہر ہے اور اگر اس کو جواب دیا گیا تو وہ گمراہ ہوگا۔۱؎علت و حکمت کا سوال کرنے والوں کو حضرت تھانویؒ کا جواب ایک شخص پوچھنے لگے کہ گاؤں میں جمعہ نہ ہونے کی کیا وجہ ہے ؟اس زمانہ میں لوگوں کو مجتہدیت کا ہیضہ بھی ہوگیا ہے ہربات کی وجہ سمجھنا چاہتے ہیں ،میں نے ان صاحب سے پوچھاکہ کیا آپ نے ہر مسئلہ کی وجہ معلوم کرلی ہے ؟تومیں آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے اس کی وجہ بتلائیے کہ مغرب کی تین رکعتیں اور عشاء کی چار کیوں ہیں ؟اور اگر ہرمسئلہ کی وجہ معلوم نہیں ہے تو اسی مسئلہ کی کیا تخصیص ہے؟ اس کو بھی اسی فہرست میں داخل کرلو ،ایسے ہی یہ سوال ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور ایصالِ ثواب کے لئے ناجائز؟ بات یہ ہے کہ حکم شرعی اسی طرح پر ہے ،قانون یہی ہے ،بعض نیم مُلاّ قیاس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تعلیمِ قرآن پر اجرت لینا علماء نے جائز کردیا ہے تو اس میں کیا حرج ہے ؟ اس میں اور اس میں کیا فرق ہوا ؟جنابِ من ایک آدھ مسئلہ جاننے سے عالم نہیں ہوتا ہے ،جب ایک شخص صاحبِ فتویٰ(معتبر مفتی ) کہتا ہے کہ یہ صورت جائز ہے اور وہ ناجائز ہے توتمہارے لئے بس اس کا قول حجت ہے۔ اگرجج کے یہاں مقدمہ ہو اور ایک شخص ہارجائے اور وہ ہارنے والا یہ کہے کہ اس دفعہ (قانون) کی رو سے بیشک میں ہار گیا لیکن اس دفعہ(قانون) کی وجہ کیا ہے؟جج فوراً کان پکڑکر نکال دے گا کہ قانونِ سرکا رکی گستاخی کرتا ہے، اسی طرح عوام کو مسائل شرعیہ کی وجوہ دریافت کرنا شریعت کی بے ادبی ہے اور منشا اس کا قلب میں احکام کی عظمت نہ ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۱؍۹۶۱۔