آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مسئلہ پوچھنے میں موقع و محل کی رعایت کرنا چاہئے (مسائل) پوچھنے کے لیے ہمیشہ الگ جلسہ ہونا چاہئے، بے وقت سوال کرنا بڑی غلطی ہے جیسے کوئی طبیب راستے میں چلا جارہا ہے اور کوئی مریض کہے چلتے چلتے نسخہ ہی لکھتے جاؤ اس حالت میں کیا نسخہ لکھے گا،پوچھنے کے لیے الگ جلسہ ہونا چاہئے جس میں یہی کام ہو تا،کہ جواب دینے والے کے تمام خیالات اسی طرف متوجہ ہوں ۔۱؎ بعض لوگ کھانا کھاتے میں کچھ پوچھا کرتے ہیں تو میں منع کردیتا ہوں کیونکہ کھانے میں خلل ہوتا ہے کھانا کھانے میں تو تقریح کی باتیں کرنا چاہئے (یعنی) اس وقت ایسی کوئی بات جس میں سوچنا پڑے نہ کرنا چاہئے اس سے غذا کے ہضم میں بھی تو فرق پڑتا ہے۔۲؎ ایک صاحب نے دور سے بیٹھے ہوئے بلند آواز سے عرض کیا کہ حضرت ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے، فرمایا کہ اتنی دور سے مسئلہ نہیں پوچھا کرتے کوئی مسئلہ بیکار نہیں ، تم کو بھی اذان دینا پڑے گی، اور مجھ کو بھی ،جب مجمع کم ہوجائے اور قریب آسکو تب پوچھنا ابھی انتظار کرو۔۳؎راستہ چلتے مسئلہ پوچھنے کی ممانعت فرمایا کہ میں راستہ میں مسئلہ نہیں بتلایا کرتا وہاں اطمینان تو ہوتا نہیں ہے۔۴؎سوال کرنے کا طریقہ سوال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو کہنا ہو اپنی طرف منسوب کرکے پوچھے دوسروں کے اقوال نقل کرکے تصویب و تخطیہ نہ کرائے(کہ یہ صحیح ہے یاغلط ) اس سے طبیعت پر بار ہوتا ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ) جو شبہ اپنے کو پیش آئے اس کا خود سوال کیجئے دوسروں کے اقوال سوال کے وقت نقل نہ کیجئے۔ (الافاضا ت الیومیہ ) ------------------------------ ۱؎؎حسن العزیز ۲؍۹۷۔۲؎ الافاضات الیومیہ ۲؍۸۔۳؎ الافاضات ۲؍۸۔ ۴؎ الافاضات الیومیہ ۲؍۱۳۵۔