آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اس کا حشر ہوگا وہ ظاہر ہے اور وہ یہ کہ گمراہی پھیلے گی۔۱؎اگر جزئیہ نہ ملے اور اگر جزئیہ نہ ملے تو جواب سے عذرکردیا جائے۔ ۲؎ اگر کوئی جزئیہ نہ ملاتو محض کلیات سے جواب نہ دوں گا لکھدوں گا کہ دیوبند یا سہارنپور سے دریافت کرلو۔۳؎ باقی جزئیہ غیرمنصوصہ میں اجتہاد کرکے عمل کرنا جائز ہے۔۴؎صرف ایک جزئیہ دیکھنا کافی نہیں بلکہ متعدد کتابیں دیکھنا چاہئے کبھی جزئیہ دیکھ کر جواب لکھنے سے بھی غلطی ہوجاتی ہے مگر جزئیہ دیکھ کر جواب لکھنے سے جو غلطی ہوتی ہے کہ جب ایک ہی کتاب میں جزئیہ دیکھ کر لکھ دیا جائے اس لیے اس کی بھی ضرورت ہے کہ وہ جزئیہ بھی متعدد کتب سے دیکھ کر لکھے، انشاء اللہ پھر غلطی نہ ہوگی مسئلہ کا جواب بدون متعدد کتابوں میں دیکھے ہوئے مناسب نہیں ، احتیاط کے خلاف ہے۔۵؎غایت درجہ احتیاط ٭دہلی سے ایک فتویٰ آیا جس کے اندر یہ سوال تھا کہ ایک شحص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دیدی اس کے بعد اس سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ تم نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی ہے، اس نے کہا ہاں دیدی ،اس کے بعد ایک دوسرے شخص نے پھر یہی دریافت کیاتب بھی اس نے یہی کہا کہ ہاں میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی ، تو یہ دوسری طلاق ہوگی یا پہلی طلاق کی حکایت ہوگی؟ حضرت نے یہ فتویٰ مشاہیر حضرات ------------------------------ ۱؎ الافاضات ص:۱۴۵۔ ۲؎ الافاضات ص: ۱۴۵ ۳؎ القول الجلیل ص:۳۔ ۴؎ دعوات عبدیت ۴؍۱۰۴۔ ۵؎ القول الجلیل ص:۳۶ ، انفاس عیسیٰ ص:۴۱۸