آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مکالمہ کے لئے چند اصول موضوعہ (نمبر۱)مسائل کا جواب عرض کرنے کے لیے میں حاضر ہوں مگر مشورہ ومصلحت کے متعلق کچھ عرض کرنے سے میں اس لیے معذور ہوں کہ مجھ کو اس سے مناسبت نہیں ۔ (نمبر۲)مسائل بعضے عین وقت پر مستحضر نہیں ہوتے ان کے جواب سے معذور ہوں گا البتہ اگر ان کی یادداشت لکھ کر مجھ کو دے دی جاوے تو کتابیں دیکھ کر اطمینان سے جواب دے سکتا ہوں ۔ (نمبر۳)مسائل پراگر کچھ شبہات ہوں تو ان کا جواب دینا ہم لوگوں کے ذمہ نہیں کیونکہ ہم لوگ مسائل کے ناقل ہیں ، بانی نہیں ہیں جیسے قوانین کے متعلق اگر کوئی شبہ یا خدشہ ہو ،اس کا جواب مجلس قانون ساز کے ذمہ ہے، جج یا وکیل کے ذمہ نہیں ۔ حافظ صاحب نے وہ اصول موضوعہ تمام ارکان وفد کو پڑھ کر سنانا شروع کئے مگر چونکہ اس مضمون کے اندر علوم کے بعض اصطلاحی الفاظ تھے اس لیے صدر صاحب کو پڑھنے میں تکلف ہوتا تھا۔حضرت والا کو صدر صاحب کی یہ مشقت گوارانہ ہوئی لہٰذا صدر صاحب سے حضرت والا نے فرمایا کہ یہ بطور اشارات میرے لکھے ہوئے چند نوٹ ہیں ، اس لیے اگر آپ یادداشت مجھے دے دیں اور میں خود پڑھ کر سب صاحبوں کو سنادوں تو سہولت ہو، اس لیے کہ میں ساتھ ساتھ اس کی شرح بھی کرتا جاؤں گا تاکہ سب صاحبوں کو اس کا مطلب سمجھنے میں آسانی ہو، چنانچہ حافظ صاحب نے نہایت خوشی سے وہ پرچہ حضرت والا کو پیش کردیا، حضرت والا نے اس کو پڑھ کر سب کو سنایا اور سمجھا دیا۔گفتگو کا آغاز: وفد کی طرف سے گفتگو کے لیے ایک مشہور بیرسٹر ایٹ لاتجویز ہوئے تھے جو