آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دوسرے مذہب پر فتویٰ دینے کی چند مثالیں (۱)سوال (۱۳۲) آج کل یہ دستور ہوگیا ہے کہ پیداوار ایکھ یعنی رس کا معاملۂ خرید،ایسے وقت ہوجاتا ہے کہ کہیں ایکھ بوئی بھی نہیں جاتی ہے ،کہیں کچھ بوئی جاتی ہے، اگرنہیں خریدی جاتی تو عین وقت پر جب کہ رس تیارہو ملتی ہی نہیں ہے ،اس صورت میں خریداری کھنڈ سال کی اجازت ہوسکتی ہے یانہیں ؟اگراجازت نہ ہو تو غالباً کھنڈ سال ہی نہ ہو یابہت ہی زاید قیمت دینے پر شاید ملے۔ الجواب: عقد سلم میں مبیع کا وقت میعاد تک برابر پایا جانا حنفیہ کے نزدیک شرط ہے ،اگر یہ شرط نہ پائی گئی توعقد سلم جائز نہ ہوگا ،لیکن شافعی ؒ کے نزدیک صرف وقت میعاد پر پایا جانا کافی ہے ،کذافی الہدایہ، تو اگر ضرورت میں اس قول پر عمل کرلیا جاوے تو کچھ ملامت نہیں رخصت ہے ۔۱؎ (۲) سوال (۲۹۴) زید نے اپنا بچھڑا بکر کو دیا کہ تو اس کی پرورش کر ،بعد جوان ہونے کے اس کی قیمت کرکے ہم دونوں میں سے جو چاہے گا نصف قیمت دوسرے کودے کر اس کو رکھ لے گا ،یازیدنے خالد کو ریوڑ سونپا اور معاہدہ کرلیا کہ اس کو بعد ختم سال پھر پڑتال لیں گے ، جو اس میں اضافہ ہوگا وہ باہم تقسیم کرلیں گے ،یہ دونوں عقد شرعاً جائز ہیں یاقفیز طحان کے تحت میں ہیں ؟ جیسا کہ عالمگیری جلدپنجم ص ۲۷۱ مطبوعہ احمدی میں ہے دفع بقرۃ الیٰ رجل علی ان یعلفہا وما یکون من اللبن والثمن بینہما انصافا فالاجارۃ فاسدۃ۔ الجواب: کتب اِلیَّ بعض الاصحاب من فتاویٰ ابن تیمیہ کتاب الاختیارات مانصہ:ولو دفع دابۃ اونخلۃ الیٰ من یقوم لہ ولہ جزء من نمائہٖ صح وہو روایۃ عن احمد ۴/۸۵ ۔پس حنفیہ کے قواعد پر تو یہ عقد ناجائز ------------------------------ ۱؎امدادالفتاویٰ ص۱۰۶ ج۳ سوال نمبر۱۳۲