آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہوتا ہے، بہ لفظ دیگر اس کا قول قضیہ شرطیہ ہوتا ہے ،یعنی اگر یہ واقعہ اس طرح ہوتواس کا قانونی حکم یہ ہے ،حدیث صحیح میں تصریح ہے کہ ہندنے اپنے شوہر ابوسفیان ؓ کی تنگیٔ خرچ کی شکایت کرکے استفتاء کیا ،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بدون تنقیح واقعہ کے ارشادفرمایا: خذی (بلااذنہ ٖکما ہومصرح فی سؤالہا)مایکفیک وولدک بالمعروف ۔ اگر مفتی باوجود کسی قسم کی ذمہ داری نہ ہونے کے کوئی احتیاط کرے وہ تبرع ہے جو لازم نہیں ۔ کبھی وہ اس تبرع یعنی احتیاط کو اختیار کرتا ہے جہاں دوسراپہلو یعنی عدم تبرع کا قوی مفسدہ نہ ہو ،اور کبھی وہ اس کو اختیار نہیں کرتا جہاں خاص احتیاط کرنے میں کوئی قوی مفسدہ ہو اور مفسدہ کا قوی وضعیف ہونا اس کے اجتہاد پر ہے اور نیک وبدہونے کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ انشاء اور موافقت میں بھی فرق ہوتا ہے ،یعنی ایک توخود کسی قول کا دعویٰ کرنا، دوسرے کسی دوسرے کے قول کے ساتھ موافقت کرنا ، اول میں زیادہ تحقیق کرتا ہے،ثانی میں تھوڑی بھی گنجائش ہوتی ہے اس میں مخالفت نہیں کرتا۔۱؎مفتی اور مجیب کی ذمہ داری مجیب کے ذمہ واقعہ کی تحقیق نہیں ،واقعہ کا اثر بیان کرنا اس کا منصب ہے ، جیسے طبیب سے کسی مریض کا حال بیان کیاجاوے کہ اس کے سرمیں درد ہے ،اس کاکام یہ ہے کہ درد سرکا نسخہ بتلادے نہ یہ کہ کسی خاص ذریعہ سے اس کی بھی تحقیق کرے کہ کیا واقع میں اس کے سرمیں درد ہے ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ حکیم الامت نقوش وتأثرات ص۴۷۹ ۲؎ حکیم الامت نقوش وتأثرات ص۵۸۵