آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
(ترجمہ)اور یہ لوگ آپ سے روح کو پوچھتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے اور تم کو بہت تھوڑاعلم دیاگیا ہے ۔ فائدہ: اس میں دلالت ہے کہ اسرار غیر ضروریہ کاتفحص(یعنی احکام کی مصلحتوں اور حکمتوں کی جستجواوراس کے متعلق سوال)مذموم ہے ، جب کہ آیت کا مدلول نہی عن السوال کہاجائے ،جیسا کہ ظاہر ہے ۱؎۔آپسی بحث و مباحثہ کی وجہ سے استفتاء نہ کرناچاہئے (کچھ لوگ) کسی سے کسی مسئلہ میں مباحثہ شروع کرتے ہیں پھر اپنی تائید کے لیے فتویٰ حاصل کرتے ہیں پھر وہ اپنے مخالف کو دکھلا کر اس پر احتجاج کرتے ہیں پھر وہ اپنے موافق فتویٰ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح خوامخواہ باہم جنگ وجدل کیا کرتے ہیں حالانکہ عوام کو اس میں پڑنا موجب خطر ہے اگر ان سے کوئی اہل باطل الجھے تو علماء کا حوالہ دے کر اس کو قطع کردیا جائے اگر غرض ہوگی تو خود پوچھے گا۔۲؎غیر ضروری اور فضول سوال نہیں کرنا چاہئے غیر ضروری چیزوں سے جن میں غیر ضروری سوال بھی آگیا اجتناب رکھو! اسلام کی خوبی میں سے ہے کہ لایعنی یعنی فضول باتوں کو ترک کردیا جائے حدیث شریف میں ہے من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ۔ جس سوال کی انسان کو خود ضرورت نہ ہو کیوں فضول وقت خراب کرے اپنا بھی اور دوسرے کا بھی، اوراگر بلا ضرورت ہی تحقیقات کا شوق ہے تو مدارس میں جاکر ترتیب سے تعلیم حاصل کیجئے، مگر آج کل یہ مرض عام ہوگیا ہے کہ لاؤ خالی بیٹھے کچھ نہ کچھ مشغلہ ہی سہی (یہ بہت بڑی غلطی ہے) ہر شخص کو اپنے عمل کے لیے پوچھنا چاہئے ۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ بیان القرآن ، مسائل السلوک ص۳۰۹ ۲؎اصلاح انقلاب ۱؍۳۱۔ ۳؎الافاضات الیومیہ ۲؍۱۲۷۔