آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
عالم اور مفتی کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ سائل کو ضرور جواب دو، بشرطیکہ وہ عمل کے لئے سوال کرے ،یا جن علوم کا حاصل کرنا شرعاً فرض ہے ان میں محض علم کے لئے نہ کہ بحث کے لئے( دریافت کرے)چنانچہ ارشاد ہے : من سئل عن علم علمہ ثم کتمہ ألجم یوم القیامۃ بلجام من النار ۱؎ جس شخص سے کوئی ایسی علمی بات پوچھی جائے جس کو وہ جانتا ہو لیکن وہ اس کو چھپائے تو اس کو دوزخ کی لگام ڈالی جائے گی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح جواب دینے کی بھی تاکید اور اس کے خلاف پر وعید فرمائی ہے چنانچہ ارشاد ہے : من اُفتی بغیر علم کان اثمہ‘ علی من افتاہ (ابوداؤد،مشکوٰۃ ص۳۵) (جس شخص کو بغیر علم کے فتویٰ دیاگیا اس کا گناہ اسی پر ہوگا جس نے فتویٰ دیا ہے) (مستفتی کی ذمہ داری ہے کہ) ایک مرتبہ سوال کرنے سے جواب نہ ملے تو خاموش نہ بیٹھ رہے، بلکہ اسی عالم سے یا اور کسی عالم سے پھر دریافت کرے، البتہ اگر یہ کوشش کرتارہا اور(مفتی کی طرف سے) جواب نہ ملا،یاغلط ملا تو اس (سائل )کو گناہ نہ ہوگا، بلکہ دونوں صورتوں میں مفتی کے ذمہ گناہ رہا جیسا کہ دونوں حدیثیں ابھی گذریں ، اسی کی طرف اشارہ کرنے کے واسطے(حدیث پاک میں ) لفظ سوال فرمایا لفظ علم نہیں فرمایا ۔ اگرکسی سائل نے مسئلہ پوچھا لیکن مسئول عنہ(مفتی) نے جواب نہ دیا یاغلط جواب دیا (تواس کا ذمہ دار مفتی ہے)پس اگر(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاء العی السوال کے بجائے شفاء العی العلم فرماتے) تو شفا ہونے کا حکم ان صورتوں کو شامل نہ ہوتا بلکہ شفاء کی صرف ایک ہی صورت ہوتی یعنی جب کہ مسئول عنہ(مفتی) جوا ب دے اور ------------------------------ ۱؎ ابوداؤد،ترمذی، مشکوٰۃ ص۳۴