آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اہل علم کو جواس وقت مجلس شریف میں موجود تھے سنایا ،ان حضرات نے اپنی رائے کا اظہار فرمایا جس میں زیادہ کی رائے حکایت کی تھی تو حضرت نے ارشاد فرمایا کہ جی ہاں میرے جی کو بھی یہی لگتا ہے، مگر جب تک کوئی اس قسم کا جزئیہ نہ مل جائے محض کلیات سے استنباط اور تعلیل کرکے جواب دینے کی ہمت نہیں پڑتی، اس لئے کہ ہم جیسے لوگوں سے تعلیل کے اندر بھی غلطی ہوجاتی ہے جیسے کہ کبھی جزئیہ دیکھ کر جواب لکھنے سے بھی غلطی ہوجاتی ہے، مگرجزئیہ دیکھ کر لکھنے سے جوغلطی ہوتی ہے تو وہ جب ہوتی ہے کہ جب ایک ہی کتاب میں جزئیہ دیکھ کر جواب لکھ دیا جائے، تواس لئے اس کی بھی ضرورت ہے کہ وہ جزئیہ بھی متعدد کتب کے اندر دیکھ کر لکھے، انشاء اللہ پھر غلطی نہ ہوگی ، پھر فرمایا کہ اگر کوئی جزئیہ نہ ملاتو میں (محض کلیات سے)جواب نہ دوں گا ،یہ لکھ دوں گا کہ دیوبند یا سہارنپور سے دریافت کرلو۔۱؎نہایت ضروری تنبیہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ ایک کتاب میں مطلق ہے اور دوسری کتاب میں مقید ہے اس لیے مسائل مہمہ میں مفتی کو لازم ہے کہ صرف ایک کتاب میں دیکھ کر فتویٰ نہ دے بلکہ مختلف کتابوں میں دیکھ کر جواب دے۔ مثلاً طلاق کے باب الکنایات میں فقہاء نے لفظ اختاری کو کنایاتِ طلاق میں بیان کیا ہے اور اس کا حکم یہ بیان کیا ہے کہ اس سے وقوع طلاق نیت کے بعد ہوتا ہے تو اس سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ اختاری میں بھی صرف نیت سے طلاق کا وقوع ہوجائے گا۔ لیکن اسی اختاری سے وقوع طلاق کی ایک شرط اور بھی ہے جو باب التفویض میں مذکور ہے وہ یہ کہ اختاری میں نیت کے ساتھ وقوع نہیں ہوتا بلکہ عورت جب اس ------------------------------ ۱؎ القول الجلیل ص۳۶