آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دیتی ہیں ،اور نافعیت میں ایک کودوسرے پر ترجیح دینے میں اہل الرائے اختلاف رکھتے ہیں اور اسی کی تحقیق کے لئے مدت سے مترددین کی طرف سے شرکت کے متعلق مختلف عنوانات سے سوالات کا سلسلہ جاری ہے ،اب تک چونکہ دونوں کے واقعات کا کافی علم نہ تھا اس لئے جواب کی بناء زیادہ ترسائلین کے بیان پر ہوتی تھی اور احیاناً جواب کے کچھ حصہ میں ثقات کی روایات کا بھی کچھ دخل ہوتا تھا اور بعض اوقات بغرض مزید تحقیق خودسائل سے بھی واقعات کی تنقیح کی جاتی تھی اور ان بناؤں کے اختلاف سے مختتم جواب نہ ہوسکتا تھا جس سے ممکن ہے کہ سائل کو شفائے تام نہ ہوتی ہو اور اس صورت میں یقیناایسے جوابوں سے طریق عمل کا اخذ کرنا جوسوال سے اصل مقصود تھا دشواری سے خالی نہ تھا اس لئے سخت ضرورت تھی کہ واقعات کی مزید تعیین وتبیین کی جاوے جس کے لئے مختلف ذرائع اختیار کئے گئے ،جس میں خاص اہتمام کے بعد بحمداللہ تعالیٰ اتنی ضروری کا میابی ہوگئی جس سے انشاء اللہ تعالیٰ شافی جواب پیش کرنا ممکن ہوگیا اور آج آپ کا خط اس جواب کے پیش کرنے کا محرک ہوگیا، یہ چند سطریں اسی جواب کی حکایت ہے ۔۱؎عنوان کی تعیین کے ساتھ ہی جواب دینا چاہئے فرمایا: میں نے زمانۂ تحریک میں کہا تھا کہ اگر بجائے مبہم عنوانات کے عنوان کی تعیین کرکے سوالات کریں تو میں جواب دوں چاہے کسی کے بھی خلاف ہو، ایک صاحب کا اسی زمانہ میں ایک سوال آیا تھا میں نے کہا کہ ’’ترک موالات‘‘ کاعنوان حذف کرکے متعین واقعہ پوچھو جواب دوں گا۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ افادات اشرفیہ درمسائل سیاسیہ ص۷۱ ۲؎ مزید المجید ص:۶۳۔