آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
عوام کی رعایت کرکے اپنے کو تہمت سے بچانا فرمایا کہ مولانا شیخ محمد صاحب کا قرضہ ایک ہندو پر آتا تھا، مولانا نے نالش کی وہاں سے آٹھ سو روپئے کی مع سود کے ڈگری ہوگئی، مولانا کو باوجودیکہ سخت حاجت تھی مگر سود سب چھوڑدیا جج مسلمان تھے انہوں نے کہا کہ در مختار میں تو روایت ہے (جس سے جواز کی گنجائش نکلتی ہے ) مولانا نے فرمایا کہ میں در مختار کس کس کو دکھاتا پھروں گا عوام کو تو سند ہوگی۔۱؎ایک عالم ربانی کی حکایت اس پراپنے ہم وطن ایک عالم کی حکایت یادآئی کہ انہوں نے کسی ہندوپر عدالت میں دعوی کیااور جس سب جج کے یہاں دعویٰ تھا وہ بھی مولوی تھے کیونکہ پہلے یہ عہدے علماء ہی کوملتے تھے تو سب جج نے مولوی صاحب کے موافق ڈگری کی اور مع سود کے جس کی مقدار آٹھ سوروپیہ تھی ڈگری دی، مولوی صاحب نے باوجود سخت حاجت کے سود کے لینے سے انکار کردیا تو سب جج نے کہا کہ مولوی صاحب آپ کیوں نہیں لیتے درمختار میں تو لکھا ہے کہ: لاربوابین المسلم والحربی فی دارالحرب مولوی صاحب نے کہاکہ میں عوام کو سمجھانے کیلئے درمختار کہاں بغل میں لئے لئے پھروں گا،مشہور تو یہی ہوگا کہ مولوی صاحب نے سودلیا۔ صاحبو! یہ علم ہے اور اس کا نا م ہے تفقہ،کہ اگر کوئی چیز قاعدہ سے جائز بھی ہو مگر اس سے دین پر حرف آتاہو تو اس کو بھی ترک کردیا جائے، مگر آج کل عموماً اس کا لحاظ نہیں کیا جاتا ہر شخص کا چندہ بے تکلف لے لیا جاتا ہے۔ ۲؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ۲؎ ارضاء الحق ملحقہ تسلیم ورضا ص۱۴۰