آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
قلب میں پیدانہیں ہوتا بلکہ اغراض کے سبب قلب کے اوپر پردہ پڑجاتا ہے ۔۱؎احکام میں علماء کااختلاف رحمت ہے ان سے بدگمان نہ ہونا چاہئے علماء امت کے درمیان رایوں اور اس کی بناء پر اجتہادی مسائل میں اختلاف ایک امر فطری ہے اور حضرات صحابہ، تابعین کے زمانہ سے ہوتا چلا آیا ہے ایسے اختلاف کوحدیث میں رحمت کہا گیا ہے مگر آج کل لوگوں نے اس اختلاف کو بھی طبقۂ علماء سے بدگمانی پیدا کرنے کے کام میں استعمال کر رکھا ہے اور سیدھے سادھے عوام ان کے مغالطہ میں آکر یہ کہنے لگے کہ جب علماء میں اختلاف ہے تو ہم کدھر جائیں ، حالانکہ دنیا کے کاموں میں جب بیماری کے علاج میں ڈاکٹروں حکیموں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو اس میں عمل کے لیے سب اپنا راستہ تلاش کرلیتے ہیں اور اس اختلاف کی بناء پر سب ڈاکٹروں اور حکیموں سے بدگمان نہیں ہوجاتے۔۲؎ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ صاحب ! فلاں مسئلہ کے متعلق علماء میں اختلاف ہے ایک کہتا ہے کہ یہ کام بدعت ہے اگر کیا گیا تو عذاب ہے دوسرا کہتا ہے کہ نہیں بدعت حسنہ ہے تو اسکے کرنے میں ثواب ہے تو ایسے موقع پر ہم کیا کریں اور کس کا اتباع کریں ، بڑی پریشانی کی بات ہے۔ اس کے متعلق حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ پریشانی کی کیا بات ہے ان لوگوں کو چاہئے کہ اس کی تحقیق کریں کہ حق کس جانب ہے؟ جو عالم اس مسئلہ میں حق پر ہو بس اس مسئلہ میں اس کے قول پر عمل کریں ۔ اور اگر اپنے اندر اتنی لیاقت نہ دیکھیں کہ یہ معلوم کرسکیں کہ کون عالم حق پر ہے یا ان کو اتنی فرصت نہیں کہ حق کی تحقیق کرسکیں تو پھر ان لوگوں کو چاہئے کہ احتیاط پر عمل کریں اور وہ احتیاط یہ ہے کہ عقیدہ تو یہ رکھیں کہ اللہ اعلم یعنی اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کون سی بات حق ہے،اور عمل یہ رکھیں کہ جس کے جائز ------------------------------ ۱؎ وعظ الصالحون ص۱۴۲ ملحقہ اصلاح اعمال، اصلاح انقلاب ص۳۱۔ ۲؎ مجالس حکیم الامت ص۲۳۹۔