آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
اس طرح ہوجانا چاہئے اسی لیے مفتی صرف ایک شخص کے بیان پر فتوی دے سکتا ہے اور قاضی ایک شخص کے بیان پر فیصلہ نہیں کرسکتا بلکہ اس کو دونوں طرف کا بیان سننا ضروری ہے پھر شہادت و حلف کے بعد فیصلہ کرے، قاضی یا سلطان کو یہ جائز نہیں ہے کہ صرف مدعی کا بیان سن کر فیصلہ کرنے لگے، جب تک کہ مدعی علیہ سے دریافت نہ کرے، یک طرفہ بیان سن کر قاضی وسلطان کو قضیہ شرطیہ کے ارادہ سے بھی حکم بیان کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں احد الفریقین کی حمایت ظاہر ہوگی اور قاضی وسلطان کو فریقین میں تسویہ کا حکم ہے، بخلاف مفتی کے کہ اس کو ایک شخص کا بیان سن کر بھی فتوی دے دینا جائز ہے کیونکہ اس کا فتوی واقعہ کا فیصلہ نہیں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر واقعہ یوں ہی ہے تو مسئلہ یہ ہے اور اگر یوں نہیں تو جواب دوسرا ہے، آج کل لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں کہ مفتی کے فتویٰ کو فیصلہ سمجھتے ہیں اور جب ایک واقعہ میں دو شخص استفتاء کرتے ہیں اور جواب مختلف دیا جاتا ہے تو علماء کو بدنام کرتے ہیں کہ اس کو کچھ جواب دیا، اس کو کچھ جواب دے دیا، اور یہ نہیں دیکھتے کہ سوال کرنے والوں نے سوال مختلف کیا ہے، اور مفتی کا جواب جملہ شرطیہ ہوتا ہے تو دو سوال کے بدلنے سے جواب ضرور بدلے گا، اور ہر سوال کے جواب کا حاصل یہ ہوگاکہ واقعہ یہ ہے تو جواب یہ ہے اور دوسری طرح کا واقعہ ہے تو جواب دوسری طرح ہے۔۱؎قاضی ا ورمفتی کے منصب کا فرق مفتی کامنصب قانون داں وکیل کا ہوتا ہے، قاضی کا نہیں ہوتا،یعنی قاضی کا حکم فیصلہ ہوتاہے اس لئے اس پرواجب ہے کہ واقعات کی تنقیح کرے، مفتی کے ذمہ یہ نہیں ، اس کے قول کا حاصل محض قانون بتلانا ہوتا ہے ،وہ بھی پوچھنے پر ،تمام بارسائل پر ------------------------------ ۱؎ الارتیاب والاغتیاب ملحقہ اصلاح اعمال ص:۵۴۲