آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
معترضین کے اعتراض اور طعن وتشنیع کے جواب میں حضرت تھانویؒ رحمۃ اللہ علیہ کا معمول حضرت (اقدس تھانویؒ) پر اگر کوئی کسی قسم کا اعتراض کرتا ہے تو اس سے اپنی برأت فرمانے کی ہرگز کوشش نہیں فرماتے بلکہ اگر وہ اعتراض علمی رنگ کا ہوتا ہے اور قابل قبول ہوتا ہے تو اس کو قبول فرماکر اپنی سابقہ تحقیق سے بلا تامل رجوع فرمالیتے ہیں ۔ اوراگر اس اعتراض کا قابل قبول ہونا مشکوک ہوتا ہے تو اس اعتراض کو اپنے جواب کے ساتھ’’ ترجیح الرجح‘‘ میں شائع فرمادیتے ہیں تاکہ دیکھنے والے خود جس کے قول کو چاہیں ترجیح دے سکیں ، یہ معاملہ تو علمی رنگ کے اعتراض کے ساتھ فرماتے ہیں ۔ اور اگر اعتراض معاندانہ رنگ کا ہوتا ہے (جو طعن وتشنیع پر مشتمل ہوتا ہے)تو اس کے متعلق پرواہ نہیں فرماتے ،چنانچہ اگر ایسا اعتراض جوابی خط کے ذریعہ موصول ہوتا ہے تو اپنی برأت فرمانے کے بجائے نہایت استغناء کا جواب تحریر فرمادیتے ہیں ، اور ایسے عنوان سے کہ معترض پر یہ ظاہر ہوجائے کہ اس کے اعتراض کو بالکل لغو اور ناقاابل التفات سمجھا گیا، مثلاً ایک شخص کو جس نے واہی تباہی اعتراضات لکھ کر بھیجے تھے تحریر فرمادیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ عیوب ہیں مگر مجھے تو اپنے عیوب کی اشاعت کی توفیق نہیں ہوئی تم ان کو مشتہر کردو تاکہ لوگ دھوکہ میں نہ رہیں ،اور اگر خط جوابی نہیں ہوتا تو اس کو پھاڑ کرردی میں ڈال دیتے ہیں ۔ ۱؎ ------------------------------ ۱؎ اشرف السوانح سوم ص۱۵۴